میاں بیوی کے درمیان اچھے تعلقات کیسے قائم ہو سکتے ہیں؟


سوال نمبر:2484
السلام علیکم کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ پر میری شادی کو 12 سال ہو گئے ہیں، 11 سال کی ایک بیٹی ہے اور 7 سال کا ایک بیٹا ہے۔ کسی بات کی وجہ سے ہم میاں بیوی کے اندر نااتفاقی آگئی ہے۔ میری بیوی طلاق کا مطالبہ کرتی ہے، جو میں دینا نہیں چاہتا، اگر میں طلاق دوں تو بچوں کی پرورش کی ذمہ داری کس کی ہو گی اور ہمارا ایک گھر ہے جو ہم دونوں نے مل کر بنایا ہے، جس پر قرضہ بھی ہے، اس گھر میں بیوی کو کتنا حصہ دینا پڑے گا۔ برائے کرم کوئی ایسا وظیفہ بتائیں یہ نا اتفاقی دور ہو اور ایک اچھی زندگی گزاریں۔

  • سائل: ذوالفقارمقام: ھُبلی بھارت
  • تاریخ اشاعت: 26 مارچ 2013ء

زمرہ: معاملات  |  طلاق رجعی

جواب:

سب سے پہلے تو آپ کے لیے بہترین مشورہ ہے کہ جو نااتفاقی پیدا ہوئی ہے اس کی اصل جڑ کو پکڑیں اور معزز رشتہ داروں کے ذریعے اس کو ختم کرو۔ طلاق کی طرف مت جاؤ اس کا بعد میں برا اثر بچوں پر بھی پڑے گا اور آپ دونوں پر بھی۔ اگر سب کچھ کرنے کے باوجود بھی مسئلہ حل ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو آپ صرف ایک طلاق رجعی دے دینا۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ عدت کے اندر مسئلہ حل ہو جائے تو رجوع کر لینا، اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو عدت کے بعد عورت آزاد ہو جائے گی، نکاح ٹوٹ جائے گا پھر وہ کسی اور سے نکاح کرنا چاہے تو کر سکے گی اگر نہ بھی کیا تو زندگی میں جب بھی آپ دونوں کو ہدایت مل جائے گی دوبارہ نکاح کر سکو گے۔ اس لیے ایک سے زیادہ طلاق نہ دینا وہ بھی اگر ضرورت پڑے تو تب، ورنہ حتی الامکان کوشش کریں کے ایک بھی نہ دینی پڑے۔

دوسری بات یہ ہے کہ طلاق ہونے کی صورت میں جب تک بچوں کو ماں کی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے ماں کے پاس ہی رہیں گے۔ لیکن ان کے اخراجات آپ ہی برداشت کریں گے۔

جہاں‌ تک گھر کی بات ہے تو اس میں آپ دیکھ لیں کہ جس کے جتنے پیسے شامل ہیں اتنا حصہ لے لے، کیونکہ وہ کوئی آپ کو وراثت میں نہیں مل رہا آپ نے خود ہی تیار کیا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی