مفتیانِ کرام کا مسائل میں اختلاف کرنا کیسا ہے؟


سوال نمبر:2348
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ اگر ایک ہی مسلک کے علماء میں سے ایک مفتی ایک چیز کو جائز قرار دے اور دوسرا مفتی اس چیز کو ناجائز قرار دے، تو عام مسلمان کیا کرے؟

  • سائل: حبیبمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 23 جنوری 2013ء

زمرہ: فقہ اور اصول فقہ

جواب:

اسلام کی یہ منفرد خصوصیت ہے کہ وہ ہر زمان ومکان میں قابل عمل نظام زندگی ہے۔ یہی وہ دین ہے جو زندگی کی طرح زندہ، فطری حقائق کی مانند ابدی اور زمانے کی طرح ارتقاء پذیر ہے۔ اس میں رفتار زندگی سے پیدا ہونے والے نئے امور اور طریقہ ہائے کار کے شانہ بشانہ چلنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے، کیونکہ قیامت تک اب کوئی نبی نہیں آئے گا نہ ہی کسی کتاب کا نزول ہو گا، لیکن نت نئے پیش آنے والے مسائل کا حل بھی ضروری ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے ہمارے پاس قرآن وحدیث، آثار صحابہ اور ائمہ مجتہدین کے فرامین محفوظ ہیں، جن سے مدد حاصل کر کے علماء کرام اور مفتیان عظام نئے آنے والے مسائل کا حل دیتے ہیں، لیکن بعض اوقات کچھ مسائل میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ اگر تو وہ اختلاف علمی ہو اس میں کوئی حرج نہیں، اس کے بہت سے فوائد ہیں، اس کے برعکس اگر ضد اور حسد کی وجہ سے اختلاف ہو تو وہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ مثلا ایک مریض کو دس ڈاکٹروں کے پاس لے جایا جائے تو وہ سب بیماری تو ایک ہی بتائیں گے لیکن ادویات مختلف تجویز سکتے ہیں۔ ان میں‌ سے ہر ایک کا مقصد مریض کو تندرست کرنا ہوتا ہے، لیکن ادویات جو جس علاقے میں دستیاب ہوں وہی دی جائیں گی۔ اگر کوئی ڈاکٹر بیماری ایسی بتائے جو مریض خود بھی محسوس نہ کرتا ہو اور ظاہری علامات بھی اس کے برعکس ہوں، اور ادویات بھی غلط تجویز کرے، تو مریض سمجھ جائے گا کہ باقی دس ڈاکٹر درست ہیں اور یہ ایک غلط ہے۔ اسی طرح مفتیان کرام کو بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس کی قرآن وحدیث اور عقل ودانش میں آنے والی بات ہے اور کون ہے جو بغیر دلیل کے اور عقل ودانش کے خلاف بات کر رہا ہے۔ فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس کو ہم مفتی سمجھ رہے ہیں اس قابل بھی ہے کہ نہیں، قرآن وحدیث کو جانتا بھی ہے یا نہیں۔ ان ساری باتوں کو مدنظر رکھنے کے بعد فیصلہ کیا جائے تو اختلاف میں کوئی حرج نہیں کسی بھی بات کو رد نہیں کیا جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی