امت محمدیہ پر عذاب نازل کیوں ہوتے ہیں؟


سوال نمبر:1999
قرآن مجید میں‌ آیا ہے کہ جب تک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں میں‌ موجود ہیں۔ اس وقت تک عذاب نہیں نازل ہوگا۔ تو آج کے دور میں زلزلے کیوں آتے ہیں؟ سیلاب کیوں آتے ہیں؟ آفات اور مصیبتیں‌ کیوں نازل ہوتی ہیں؟ کیا نبی موجود نہیں ہیں؟ براہ مہربانی اس کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ عنایت فرمائیں۔ شکریہ

  • سائل: سید زاہد عزیز شاہمقام: ملتان چونگی، لاہور
  • تاریخ اشاعت: 10 جولائی 2012ء

زمرہ: عقائد

جواب:

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :

إِذْ تُصْعِدُونَ وَلاَ تَلْوُونَ عَلَى أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلاَ تَحْزَنُواْ عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلاَ مَا أَصَابَكُمْ.

(آل عِمْرَان ، 3 : 153)

جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تاکہ تم اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی رنج نہ کرو،

اس آیت کی مفسرین کرام نے بہت ساری تفاسیر بیان کی ہیں، ان میں سے ایک تفسیر یہ ہے کہ مسلمانوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکم عدولی کر کے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غم پہنچایا تھا اس کی سزا میں انہیں جنگ احد میں شکست اور اپنے احباب کے قتل اور ان کے زخمی ہونے کا غم اٹھانا پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم ماننے میں اختلاف اور تنازع کیا۔

ذیل میں دی گئیں سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 149 تا 155 کا مطالعہ فرمائیں ان آیات میں عزوہ احد کا ذکر کیا گیا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِن تُطِيعُواْ الَّذِينَ كَفَرُواْ يَرُدُّوكُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فَتَنقَلِبُواْ خَاسِرِينَ. بَلِ اللّهُ مَوْلاَكُمْ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ. سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُواْ الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ وَبِئْسَ مَثْوَى الظَّالِمِينَ. وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ حَتَّى إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ وَاللّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ. إِذْ تُصْعِدُونَ وَلاَ تَلْوُونَ عَلَى أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلاَ تَحْزَنُواْ عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلاَ مَا أَصَابَكُمْ وَاللّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ. ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَى طَآئِفَةً مِّنكُمْ وَطَآئِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ يُخْفُونَ فِي أَنفُسِهِم مَّا لاَ يُبْدُونَ لَكَ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَى مَضَاجِعِهِمْ وَلِيَبْتَلِيَ اللّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ. إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ.

اے ایمان والو! اگر تم نے کافروں کا کہا مانا تو وہ تمہیں الٹے پاؤں (کفر کی جانب) پھیر دیں گے پھر تم نقصان اٹھاتے ہوئے پلٹو گےo بلکہ اللہ تمہارا مولیٰ ہے اور وہ سب سے بہتر مدد فرمانے والا ہےo ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں (تمہارا) رعب ڈال دیں گے اس وجہ سے کہ انہوں نے اس چیز کو اللہ کا شریک ٹھہرایا ہے جس کے لئے اللہ نے کوئی سند نہیں اتاری اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا (وہ) ٹھکانا بہت ہی برا ہےo اور بیشک اللہ نے تمہیں اپنا وعدہ سچ کر دکھایا جب تم اس کے حکم سے انہیں قتل کر رہے تھے، یہاں تک کہ تم نے بزدلی کی اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) حکم کے بارے میں جھگڑنے لگے اور تم نے اس کے بعد (ان کی) نافرمانی کی جب کہ اللہ نے تمہیں وہ (فتح) دکھا دی تھی جو تم چاہتے تھے، تم میں سے کوئی دنیا کا خواہش مند تھا اور تم میں سے کوئی آخرت کا طلب گار تھا، پھر اس نے تمہیں ان سے (مغلوب کر کے) پھیر دیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے، (بعد ازاں) اس نے تمہیں معاف کر دیا، اور اللہ اہلِ ایمان پر بڑے فضل والا ہےo جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تاکہ تم اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی رنج نہ کرو، اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہےo پھر اس نے غم کے بعد تم پر (تسکین کے لئے) غنودگی کی صورت میں امان اتاری جو تم میں سے ایک جماعت پر چھا گئی اور ایک گروہ کو (جو منافقوں کا تھا) صرف اپنی جانوں کی فکر پڑی ہوئی تھی وہ اللہ کے ساتھ ناحق گمان کرتے تھے جو (محض) جاہلیت کے گمان تھے، وہ کہتے ہیں: کیا اس کام میں ہمارے لئے بھی کچھ (اختیار) ہے؟ فرما دیں کہ سب کام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، وہ اپنے دلوں میں وہ باتیں چھپائے ہوئے ہیں جو آپ پر ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ کہتے ہیں کہ اگر اس کام میں کچھ ہمارا اختیار ہوتا تو ہم اس جگہ قتل نہ کئے جاتے۔ فرما دیں: اگر تم اپنے گھروں میں (بھی) ہوتے تب بھی جن کا مارا جانا لکھا جا چکا تھا وہ ضرور اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل کر آجاتے، اور یہ اس لئے (کیا گیا) ہے کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اللہ اسے آزمائے اور جو (وسوسے) تمہارے دلوں میں ہیں انہیں خوب صاف کر دے، اور اللہ سینوں کی بات خوب جانتا ہےo بیشک جو لوگ تم میں سے اس دن بھاگ کھڑے ہوئے تھے جب دونوں فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہو گئی تھیں تو انہیں محض شیطان نے پھسلا دیا تھا، ان کے کسی عمل کے باعث جس کے وہ مرتکب ہوئے، بیشک اللہ نے انہیں معاف فرما دیا، یقینا اللہ بہت بخشنے والا بڑے حلم والا ہےo

غزوہ احد میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکم عدولی پر سزا دی اور ان کو غم دیا گیا۔ مسلمانوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کو نہ مانا اور اپنی جگہ چھوڑ دی اور مال غنیمت سمیٹنے لگے تو ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، اپنے دوست احباب کی شہادت پر غم سہنا پڑا۔ یہ سب کیوں ہوا؟ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے، وہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے حکم کی عدولی تھی۔

صحابہ کرام جو ہر وقت حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے فرمان پر جان دینے کو تیار رہتے تھے، اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی حکم کی نافرمانی ہو جائے، اختلاف اور تنازع ہو جائے تو اللہ تعالی ان کو شکست کے عذاب میں مبتلا کر سکتا ہے، ان کے دوست احباب کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں، فتح چھینی جا سکتی ہے تو پھر آج ہم مسلمان جو ہر قدم پر اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی کا عذاب زلزلوں، سیلاب، اور دہشت گردی کی صورت میں نازل نہ ہو؟

یہ آج جو ہم اپنے معاشرے میں عذاب کی مختلف صورتیں دیکھتے ہیں، یہ سب ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے، جن کی ہم کو سزا مل رہی ہے۔ جہاں تک تعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں عذاب نازل ہونے کا ہے، تو وہ پوری امت پر اجتماعی عذاب کا ذکر ہے کہ سابقہ امتوں کی طرح امت محمدیہ پر اجتماعی طور پر عذاب نازل نہیں ہو گا۔ شکلیں، چہرے، صورتیں مسخ نہیں ہونگے، اجتماعی طور پر امت کو خنزیر اور بندر کی صورت میں مسخ نہیں کیا جائے گا، قوم عاد و ثمود اور دیگر اقوام کی طرح نیست ونابود نہیں کیا جائے گا۔

آج اگر زلزلہ آتا ہے تو کسی ایک ملک کے کسی حصے میں آتا ہے، اسی طرح سیلاب، دہشت گردی اور عذاب کی دوسری صورتیں ہیں۔ اجتماعی طور پر آج تک نہ تو امت محمدیہ پر زلزلہ آیا ہے اور نہ سیلاب اور نہ ہی کوئی دوسرا عذاب۔ جزوی طور پر ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالی ہم کو سزا دیتا ہے، ہمیں سنھبلنے اور تائب ہونے کا موقع دیتا ہے۔ ہمیں تنبیہ کی جاتی ہے۔

لہذا ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج بھی ہمارے اندر زندہ ہیں، جس کی وجہ سے آج بھی امت محمدیہ کلی عذاب سے محفوظ ہے، جس طرح پہلی اقوام پوری کی پوری نیست وبابود ہو جاتی تھی۔ جزوی طور پر مصیبتیں، پریشانیاں آفات و بلیات اور عذاب ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔ ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہیے اور عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب ہم غلطی کریں تو اللہ تعالی ہم پر عذاب نازل نہ کرے یا غلطی کی سزا نہ دے۔ جزوی طور پر یہ سزائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی رہیں گی لیکن کلی طور پر امت محمدیہ کو تباہ و برباد نہیں کیا جائیگا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری