کیا سود کا اطلاق صرف مسلمانوں کے مال پر ہوتا ہے؟


سوال نمبر:1755

اس بارے میں علمائے دین کیا فرماتے ہیں۔
جناب میرے دو مسئلے ہیں

1۔ ایک غیر مسلم کمپنی ہے امریکہ کی ان کی پالیسی ہےایک انکی پوزیشن ہوتی ہیں 10ڈالر کی ایک اور ایک پوزیشن پہ وہ 2٪فکس پرافٹ دیتے ہیں روز کا اور وہ اپنی مرضی سے دہ رہے ہیں کوئی زبردستی یا جبر نہیں ہے اب آپ سے پوچھنا ہے کہ یہ پرافٹ لینا جائز ہے کہ نہیں اگر سود میں آتا ہے تو کیسے کیوں کہ غیر مسلم ہیں اور ان احادیث کی روشنی میں یہ سود بنتا ہے کیا۔

  1. یعنی حربی کافروں اور مسلم کا درمیان سود متحقق نہیں ہوتا۔
  2. یعنی کفار کا مال مباح ہوتا ہے لہذا مسلم کو اختیار ہے کہ وہ ان کا مال کسی بھی طریقے سے حاصل کرے بشرطیکہ اس میں دھوکہ نہ ہو۔
  3. یعنی قرآن و حدیث میں جہاں سود کی حرمت کا بیان ہے ان کا اطلاق صرف مسلم کے مال پہ ہوتا ہے۔

2۔ ایک غیر مسلم کمپنی ہے امریکہ کی ان میں انوسٹمنٹ کرو جتنی بھی 1 روپے سے 1 الاکھ تک تو وہ 2٪فکس پرافٹ دیتے ہیں روز کا اور وہ اپنی مرضی سے دہ رہے ہیں کوئی زبردستی یا جبر نہیں ہے اب آپ سے پوچھنا ہے کہ یہ پرافٹ لینا جائز ہے کہ نہیں اگر سود میں آتا ہے تو کیسے کیوں کہ غیر مسلم ہیں اور ان احادیث کی روشنی میں یہ سود بنتا ہے کیا۔

  1. یعنی حربی کافروں اور مسلم کے درمیان سودمتحقق نہیں ہوتا۔
  2. یعنی کفار کا مال مباح ہوتا ہے لہذا مسلم کو اختیار ہے کہ وہ ان کا مال کسی بھی طریقے سے حاصل کرے بشرطیکہ اس میں دھوکہ نہ ہو۔
  3. یعنی قرآن و حدیث میں جہاں سود کی حرمت کا بیان ہے ان کا اطلاق صرف مسلم کے مال پہ ہوتا ہے۔

اب مہربانی فرما کر میری اس بارے میں رہنمائی کریں
(جزاک اللہ)

  • سائل: محمد اسحاقمقام: راولپنڈی
  • تاریخ اشاعت: 18 مئی 2012ء

زمرہ: سود

جواب:

1۔ اسلامی ملک ہو یا کوئی غیر اسلامی سود ہر جگہ حرام ہے۔ جیسے زنا اسلامی ملک میں کیا جائے یا غیر اسلامی ملک میں حرام ہے اور حد نافذ ہو گی۔

اب کوئی بھی ملک حربی نہیں رہا ۔ دوسرا لڑائی اور جنگ کی صورت میں حربی کافر کا مال ومتاع جائز ہوتا ہے جسے مال غنیمت کہتے ہیں۔

2۔ اگر کمپنی منافع میں سے 2 فیصد منافع دیتی ہے تو جائز ہے ورنہ نہیں۔ یعنی اگر فی صد کے حساب سے دے تو جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری