خاندانی منصوبہ بندی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


سوال نمبر:1617
السلام علیکم اسلام میں خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں‌ کیا حکم ہے؟ ہم کونسے ذرائع استعمال کر کے منصوبہ بندی کر سکتے ہیں؟

  • سائل: محمد صدیق قریشیمقام: پونا، انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 14 اپریل 2012ء

زمرہ: ضبط تولید

جواب:

120 دن کے اندر اسقاط حمل جائز

حدیث پاک میں ہے :

ان احدکم يجمع فی بطن امه اربعين يوما ثم علقة مثل ذلک ثم يکون مضغة مثل ذلک ثم يبعث الله ملکا فيومر باربع برزقه واجله وشقی او سعيد‘‘

’’ تم میں سے ہر ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن گزارتا ہے (نطفہ) پھر اسی قدر علقہ۔ پھر اسی قدر مضغہ پھر اللہ فرشتہ بھیجتا ہے اور چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے۔ رزق، عمر، نیک بخت یا بدبخت‘‘

(صحيح البخاری 2 : 976)

فقہائے کرام فرماتے ہیں اگر حاملہ چاہے تو 120 دن سے پہلے اسقاط حمل کر سکتی ہے۔

هل يباح الااسقاط بعد الحبل يباح ما لم يتخلق شئی منه، ثم فی غير موضع ولا يکون ذلک الا بعد مائه وعشرين يوما انهم ارادوا بالتخليق نفخ الروح

(الدر المختار مع الرد المختار للشامی 3 : 176 طبع کراچی، فتح القدير الابن الهمام، 3 : 274)

کیا حمل ٹھہرنے کے بعد ساقط کرنا جائز ہے؟ (ہاں) جب تک اس کی تخلیق نہ ہو جائے جائز ہے۔ پھر متعدد مقامات پر تصریح ہے کہ تخلیق کا عمل 120 دن یعنی چار ماہ کے بعد ہوتا ہے تخلیق سے مراد روح پھونکنا ہے۔

اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے بچوں کی پیدائش سے بچہ یا زچہ کی صحت پر اور بچوں کی دیکھ بھال پر منفی اثرات پڑیں گے۔ تو اس صورت میں ہر عورت کے لئے ضبط تولید کے مفید اصولوں کو اپنانا نہ صرف جائز بلکہ مناسب تر ہے۔ بچے کی پیدائش پر ماں کو جن تکالیف ، کمزوریوں اور دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ کچھ عورتیں ہی کر سکتی ہیں۔ ہر ماں گویا مر کر دوبارہ زندہ ہوتی ہے۔ پھر پیدا ہونے والے بچے کو دو سال تک دودھ پلانا ماں کی ذمہ داری اور بچے کا حق ہے۔ اور اس میں بے شمار جسمانی اور روحانی فوائد ہیں۔ ماں کے دودھ کا بدل کوئی ہرگز ہرگز نہیں۔ اب جلد جلد بچے پیدا کرنے سے ایک تو ماں کی جسمانی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ دوسرے بچوں کو ان کا وہ شرعی حق نہیں ملتا جو قرآن نے ان کو دیا ہے۔

وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ

البقره 2 : 233

’’ اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں‘‘

اس صورت میں ضبط ولادت کے مفید طریقوں کو اپنانا بالکل ناجائز نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحابہ کرام نے عرض کی :

’’يا رسول الله کنا نعزل فزعمت اليهود انه الموؤدة الصغری فقال کذبت اليهود ان الله اذا اراد ان يخلقه لم يمنعه‘‘

’’یا رسول اللہ ہم (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) عزل کرتے تھے۔ یہود کا خیال ہے کہ یہ چھوٹا زندہ درگور کرنا ہے، اس پر فرمایا، یہودیوں نے جھوٹ بولا، بیشک اللہ جب کسی کو پیدا کرنے کا ارادہ کر لے کو اس کو منع نہیں کر سکتا‘‘۔

(جامع ترمذی،1 : 135 )

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’کنا نعزل والقرآن ينزل‘‘

’’ قرآن اتر رہا تھا اور ہم عزل کیا کرتے تھے‘‘(ایضا)

مطلب یہ کہ قرآن نے ہمیں منع نہیں کیا۔ امام ترمذی اس پر تبصرہ فرماتے ہیں۔

’’قد رخص قوم من اه العلم من اصحاب النبی صلی الله عليه وآله وسلم وغيرهم فی العزل وقال مالک ابن انس تستامر الحره فی العزل ولا تستامر الامه‘‘

جامع ترمذی، 1 : 135

’’صحابہ کرام اور دیگر بعض اہل علم نے عزل کی اجازت دی۔ مالک بن انس نے فرمایا عزل کے معاملہ میں آزاد عورت سے اجازت لی جائے اور لونڈی سے اجازت کی ضرورت نہیں‘‘

نوٹ :

عزل کا مطلب ہے ہم بستری کرتے وقت انزال کا وقت آئے تو مادہ منویہ ٹپکایا جائے۔ ہدایہ اور اس کی شرح فتح القدیر میں ہے۔

’’الصحيح الجواز ففی الصحيحين عن جابر کنا نعزل والقرآن ينزل وفی المسلم عنه کنا نعزل علی عهد رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فبلغ ذالک النبی صلی الله عليه وآله وسلم فلم ينهنا‘‘

(فتح القدير، 3 : 273 طبع سکهر)

’’صحیح یہ ہے کہ عزل جائز ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ ہم عزل کرتے تھے اور قرآن نازل ہو رہا ہوتا، انہی سے مسلم میں ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں عزل کیا کرتے تھے، پس یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچی اور آپ نے ہم کو منع نہ فرمایا‘‘

فقہائے کرام فرماتے ہیں۔

’’للسيد العزل عن امته بلا خلاف وکذا الزوج الحرة باذنها‘‘

(در المختار شامی 3 : 175 طبع کراچی)

’’ اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ آقا لونڈی سے عزل کر سکتا ہے۔ یونہی آزاد بیوی سے بھی عزل کر سکتا ہے مگر اس کی اجازت سے‘‘۔

عزل کا مقصد یہی ہوتا ہےکہ ہم بستری کے وقت جب انزال کا وقت آئے تو مادہ منویہ کو رحم میں نہ جانے دے اور باہر گرا دے تاکہ حمل نہ ہو۔ اگر ضبط ولادت ناجائز ہوتا تو شارع علیہ السلام کبھی اس کی اجازت نہ دیتے۔ جب سرکار نے اجازت دے دی تو اس کے جواز شک نہ رہا۔ محقق علی الاطلاق امام ابن ہمام فتح القدیر میں لکھتے ہیں۔

’’فی السنن عن ابی سعيد الخدری ان رجلا قال يا رسول الله ان لی جاريه وانا اعزل عنها وانا اکره ان تحمل وانا اريد ما يريد الرجال وان اليهود تحدث ان العزل هو الموؤدة الصغری قال کذبت يهود ولو اراد الله ان يخلقه ما استطعت ان تصرفه‘‘

(فتح القدير 3 : 273)

سنن میں ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ! میری لونڈی ہے میں اس سے عزل کرتا ہوں، خواہش بھی ویسی ہی ہے جیسی دوسروں کی ہوتی ہے۔ یہودی کہتے ہیں عزل چھوٹا زندہ درگور ہے۔ فرمایا یہودی جھوٹ بولتے ہیں، اور اگر اللہ اس کو پیدا کرنا چاہے تو تو اسے پھیر نہیں سکتا‘‘

اسلام اور تہذیب مغرب میں ٹکراؤ

یہ ہے ضبط تولید میں اسلام کا نظریہ کہ آپ واقعی ضروریات مجبوری کے پیش نظر ضبط ولادت کی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔ مگر مغرب کی بے لگام تہذیب کے پیش نظر شاید یہ امور نہیں۔ وہ اس کو دوسرے زاوئیے سے دیکھتے ہیں۔ مثلا معاشی مسائل۔ معاشرتی ذمہ داریوں سے بچنا اور فحاشی پھیلانا۔ ظاہر ہے کہ یہ سوچ اسلامی شریعت اور مزاج کی عین نقیض ہے۔ وہ کہتے ہیں آبادی بڑھنے سے لوگ بھوکے مریں گے۔ معاشرتی واقتصادی مسائل پیدا ہوں گے جن پر قابو پانا ناممکن ہو گا۔ جس کی کچھ جھلک آج دیکھی جا سکتی ہے۔ ہم یہ عرض کریں گے کہ معاشی اور معاشرتی مسائل کا حل یہ نہیں کہ آپ آبادی پر کنٹرول کریں گے۔ آخر کچھ نہ کچھ لوگ تو بچیں گے اور جب تک یہ ظالمانہ جاگیرداری وسرمایہ داری نظام کا منحوس سایہ یہاں رہے گا فتنہ وفساد کا بازار گرم رہے گا۔ لوگوں کی غربت کا سبب یہ نہیں کہ آبادی زیادہ ہے اور وسائل رزق کم ہیں۔ ہرگز نہیں۔ آج جو وسائل رزق دنیا کو حاصل ہیں، ان کا عشر عشیر بھی پہلے لوگوں کو حاصل نہ تھے۔ آج کے متوسط آمدنی والے انسان کو زندگی کی آسائشیں حاصل ہیں وہ پہلے زمانے کے امیر کبیر لوگوں کو خواب میں بھی کبھی نہ ملی ہوں گی۔ واقعہ یہ ہے کہ قدرت کے خزانوں میں کمی نہیں۔ وسائل رزق بہت کم ہیں لیکن فرعون وقارون کا جانشین۔ سرمایہ دار۔ جاگیردار اور مٹھی بھر عیاش طبقہ ان وسائل رزق پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ خود درجنوں بچے جنتے ہیں اور غریبوں کو ’’بچے کم اور خوشحال گھرانہ‘‘ کی گیت سناتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سود، جوا، رشوت اور دوسرے ناجائز طریقوں سے جو قومی دولت انہوں نے لوٹی ہے وہ ان میں سے چھین کر محروم طبقوں میں منصفانہ طور پر تقسیم کی جائے۔ ان کو سادہ زندگی کا خوگر بنایا جائے۔ اور ان کی فضول خرچیوں سے قومی سرمایہ بچا کر عوام کی پسماندگی دور کرنے پر صرف کیا جائے۔ یہاں تو المیہ یہ کہ وہ زمین جو قدرت نے تمام لوگوں کے لئے پیدا فرمائی، اس پر 10 فیصد جاگیردار قابض ہے۔ 90 فیصد عوام اس کے غلام اور دست نگر ہیں۔ یہ محنت کرنے کو اپنے لئے حرام جانتا ہے۔ دوسروں کی محنت کا استحصال کرتا ہے بقول اقبال مرحوم

بریشم قبا خواجہ از محنت او
نصیب تتش و جامہ تار تارے

صنعت، تجارت اور اعلی ملازمتوں پر قابض ہے۔ اور دھڑا دھڑ بچے پیدا کرتا ہے۔ جن کی صحیح تعلیم نہ تربیت۔ جیسے ماحول میں وہ بچے پرورش پاتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ بچے بچپن سے مغرور، متکبر، ظالم، عیاش اور بدمعاش ہوں۔اور سیاست وحکومت، اقتصاد ومعاش ان کے قبضہ میں ہے۔ ذرائع نشرواشاعت ان کے پاس، خزانہ پولیس اور فوج سب ان کے ہاتھ میں ظلم وجور عیاشیوں اور بددیانتوں کے نت نئے ریکارڈ قائم نہ ہوں تو کیا ہو۔

رہی یہ بات کہ جن روحوں کا آنا مقدر ہو چکا ہے وہ آ کر رہیں گی’’ سو اس میں شک نہیں کہ جس نے آنا ہے آ کر رہے گا۔ لہذا اس کی اتنی شدومد سے مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ آپ اپنی مجبوری کی بناء پر انسداد تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح، جیسے بیمار کا علاج کرتے ہیں بچاؤ کی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ حالانکہ وقت مقررہ پر جس نے مرنا ہے وہ مر کر رہے گا۔

چار ماہ کے اندر ضبط تولید جائز ہے

رحم مادر میں استقرار حمل جب تک 120 دن یعنی چار ماہ کا نہ ہو جائے، حمل ضائع کرنا جائز ہے۔ جب چار ماہ کا بچہ بطن مادر میں ہو جائے تو اب اسے ضائع کرناجائز نہیں بلکہ حرام ہے۔

ایک اشکال :

حضرت جرامہ بنت وہب رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں ’’میں کچھ لوگوں کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ آپ فرما رہے تھے‘‘ میں نے غیلہ حاملہ کا بچے کو دودھ پلانا۔

 حاملہ یا دودھ پلانے والی سے قربت کرنا) سے منع کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ پھر میں نے رومیوں اور فارسیوں کو غیلہ کرتے دیکھا اور اس سے ان کے بچوں کو ذرا بھر تکلیف نہیں ہوتی پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے آپ سے عزل (جماع کے وقت منی باہر گرانا) کے بارے میں پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ذالک الواد الخفی واذا المؤده سئلت‘‘

(مسلم 1 : 466)

’’ وہ پوشیدہ زندہ درگور کرنا ہے اور یہی مصداق اس آیت کریمہ کا کہ وہ جب زندہ گاڑھی ہوئی بچی سے پوچھا جائے گا (کہ اسے کسی گناہ کے عوض قتل کیا گیا‘‘)

امام نووی فرماتے ہیں

’’قال اصحابنا لايحرم‘‘

’’ہمارے اصحاب(شوافع) نے کہا (عزل) حرام نہیں‘‘

’’اصحهما لا يحرم‘‘

’’صحیح تر یہی ہے کہ عزل حرام نہیں‘‘

پھر عزل کے متعلق دونوں قسم کی روایات میں تطبیق دیتے ہوئے امام نووی فرماتے ہیں۔

ما ورد فی النهی محمول علی کراهه تنزيه وما ورد فی الاذان فی ذلک محمول علی انه ليس بحرام‘‘

(نووی شرح مسلم 1 : 464)

’’ممانعت کی روایات مکروہ تنزیہ پر محمول ہیں اور اجازت کی روایات کا مطلب یہ ہے کہ عزل حرام نہیں‘‘

ترمذی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’ہم نے عرض کی یا رسول اللہ ھم عزل کرتے تھے یہودیوں کا خیال ہے کہ یہ ’’چھوٹا زندہ درگور‘‘ کرنا ہے فرمایا

’’کذبت اليهود ان الله اذا اراد ان يخلقه لم يمنعه‘‘

(ترمذی 1 : 135)

’’یہودیوں نے جھوٹ بولا، جب اللہ تعالی کسی کو پیدا کرنا چاہے کوئی اسے روک نہیں سکتا‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ ’’عزل کو زندہ درگور‘‘ کہنا یہودیوں کا وطیرہ تھا۔ اور ماقبل حدیث میں انہی کا قول نقل فرمایا گیا ہے‘‘

(عمدة القاری شرح صحيح البخاری للعينی ج 20 ص 195)

فقہائے کرام :

’’يعزل عن الحرة باذنها‘‘

(الدرالمختار مع ردالمختار 3 : 175)

’’آزاد بیوی سے اس کی اجازت کے ساتھ عزل کر سکتا ہے‘‘

اسقاط حمل :

’’يباح اسقاط الولد قبل اربعة اشهر‘‘

(شامی 3 : 176)

’’چار مہینے سے پہلے حمل گرانا جائز ہے‘‘

مگر بلا ضرورت حمل گرانا مکروہ ہے اور عورت کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔

علامه ابن نجيم، البحر الرئق، 3 : 200، علامه کاسانی بدائع الصنائع، 2 : 334، فتاوی عالمگيری، 1 : 335، امام بن همام، هدايه مع فتح القدير 3 : 272.

’’المرءة يسعها ان تعالج لا سقاط الحبل مالم يستبن شئی من خلقه وذلک مالم يتم له، مائه وعشرون يوما‘‘

’’عورت حمل گرا سکتی ہے جب تک اس کے اعضاء واضح نہ ہو جائیں اور یہ بات 120 (چار ماہ) دن گذارنے سے پہلے ہوتی ہے‘‘۔

پس چار ماہ جس حمل کے گذر جائیں اسے ضائع کرنا جائز نہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی