کیا گناہ یا ثواب پہلے سے ہی انسان کی قسمت میں‌ لکھا ہوتا ہے؟


سوال نمبر:1496
السلام علیکم قسمت کیا ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ جب بھی گناہ یا ثواب کا کام کیا جاتا ہے تو وہ ہماری قسمت میں پہلے ہی لکھا ہوتا ہے، تو پھر اس کے مطابق ہم کو جنت یا دوزخ میں کیوں ڈالا جائے گا، ہم نے اگر کوئی گناہ کیا تو یہ تو ہماری قسمت میں‌ پہلے سے ہی لکھا تھا، اس لیے وہ گناہ ہم نے کر دیا، اس میں انسان کا کیا قصور؟

  • سائل: ثمرین آصفمقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 14 مارچ 2012ء

زمرہ: ایمان بالقدر

جواب:

انسان کی قسمت کا تعلق مسئلہ تقدیر سے ہے اور اس کے حوالے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تقدیر پر بحث مباحثہ اور مناظرہ نہ کرو۔ کیونکہ تقدیر پر گفتگو کرنے سے انسان میں شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں اور ایمان اور عاقبت خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ تقدیر پر ہمیں ایمان لانے کا حکم ہے بحث کرنے کا نہیں۔

تقدیر ارکان ایمان میں سے ایک رکن ہے، جس کا انکار دائرہ اسلام سے خروج ہے۔ حدیث جبریل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارکان ایمان بتائے ہیں۔ فرمایا ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول، فرشتوں، آسمانی کتابوں، آخرت کے دن اور اچھی یا بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔

تقدیر و قسمت علم الہی ہے، انسان علم الہی کا پابند نہیں، بلکہ حکم الہی کا پابند ہے، حکم الہی یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، شریعت پر عمل کریں اور علم الہی یہ ہے کہ فلاں شخص نے گناہ کرنا ہے، قتل کرنا ہے، اچھے یا برے عمل کرنے ہیں۔

اللہ تعالی نے کسی کی قسمت یا تقدیر میں گناہ یا برائی نہیں لکھی ہے، بلکہ یہ انسان کا اپنا عمل ہے، اللہ تعالی جانتا ہے کہ فلاں شخص نے دنیا کے اندر جا کر کون کون سے عمل کرنے ہیں؟ انسان نے جو عمل کرنے ہوتے ہیں، وہ لکھے جاتے ہیں اور یہ صرف اللہ تعالی کو علم ہوتا ہے۔ کسی انسان کو نہیں۔ اللہ تعالی نے انسان کو باشعور اور بااختیار پیدا کیا ہے، اللہ تعالی نے اچھائی اور برائی کو بھی پیدا کیا ہے، انسان کو شعور دیا ہے اور بتا دیا کہ اچھائی کیا ہے؟ اور برائی کیا؟ اب انسان کی مرضی چاہے جو کرے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:

اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

(فُصِّلَت - حٰم السَّجْدَة ، 41 : 40)

تم جو چاہو کرو، بے شک جو کام تم کرتے ہو وہ خوب دیکھنے والا ہےo

یہاں بتا دیا کہ جو تم چاہتے ہو وہ کرو۔ اگر اللہ تعالی نے انسان کی تقدیر اور قسمت میں برائی یا گناہ لکھا ہوتا تو کبھی بھی نہ فرماتا کہ جو تمہارا دل کرتا ہے وہ کرو، اگر انسان مجبور ہوتا تو پھر اللہ تعالی فرماتا جو میں نے تمہاری تقدیر میں لکھا ہے وہ کرو، لیکن ایسا نہیں فرمایا بلکہ اچھائی اور برائی میں انسان کو اختیار دے دیا کہ جو تمہارا دل کرے وہ کرو۔ اللہ تعالیٰ بس دیکھنے والا ہے۔ جیسا کرو گے ویسی ہی اس کی سزا وجزا ملے گی۔

یہ بہت لمبا موضوع ہے، مختصر یہ کہ ہم علم الہی وتقدیر الہی کے پابند نہیں، بلکہ حکم الہی کے پابند ہیں، جیسا ہمیں حکم دیا گیا، شریعت پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیا، اوامر و نواہی پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیا، اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کرنی چاہیے، اللہ تعالی نے برائی کو تخلیق کیا ہے تاکہ اچھائی اور برائی میں تمیز اور فرق ہو جائے کہیں بھی برائی کرنے کا حکم نہیں دیا۔ انسان خود کرتا ہے۔

حکیم الامت علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں :

تقدیر کے پابند جمادات ونباتات
مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند (اقبال)

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری