احسان و تصوف کا عقیدے کے ساتھ کیا تعلق ہے؟


سوال نمبر:117
احسان و تصوف کا عقیدے کے ساتھ کیا تعلق ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 20 جنوری 2011ء

زمرہ: روحانیات  |  روحانیات  |  روحانیات

جواب:
احسان اور تصوف کا عقیدے سے تعلق ایسے ہی ہے جیسے عقیدے کا عمل سے یا جسم کا روح سے تعلق ہے۔ اسلام اگر ایک عقیدہ ہے تو احسان اس کی عملی صورت کا نام ہے۔ عقیدہ جب تک عمل کا روپ نہ دھارے وہ ایک بے جان لاشے کی مانند ہے۔ اس کی حقیقت وہم سے زیادہ نہیں۔ ہمارا ایمان و عقیدہ ہے کہ اللہ ایک ہے، وہ وحدہ لاشریک ہے، اگرچہ ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے لیکن اس کا بار بار اظہار کر کے بھی ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک یہ عقیدہ ہمیں عملاً اللہ کے سوا ہر چیز کے خوف سے بے نیاز نہ کر دے لیکن روزمرہ زندگی میں ہمارا عمل اس کے برعکس نظر آتا ہے۔ ہم خدا کے سوا ہر چیز سے ڈرتے ہیں، ہم سرمایہ و دولت اور جاہ و منصب کے پجاری ہیں۔ ہمارے اندر سے خوف خدا رخصت ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود ہم شرک کا انکار بھی کرتے ہیں ظاہر و باطن اور قول و فعل کے اس تضاد سے عقیدہ اور قوت عقیدہ محض خام خیالی کے سوا اور کچھ نہیں؟

دراصل عقیدہ یا ایمان صرف اسی وقت زندہ قوت بنتا ہے جب وہ عمل کے سانچے میں ڈھل جائے اور ایسا ہونا قوت یقین کے بغیر ممکن نہیں۔ واضح رہے کہ یقین مشاہدے سے آتا ہے اور ایمان کو مشاہدہ حق کے مقام تک پہنچا دینا ’’مرتبہ احسان‘‘ کہلاتا ہے جس کے حصول کا ذریعہ تصوف و طریقت ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ صرف تصوف ہی مذہبی واردات کی وہ صورت ہے جو تعلیمات اسلامی اور کيفیات ایمانی کے عملی روحانی تجربہ سے نمو حاصل کرتی ہے، یہی مشاہدہ کا وہ نظام ہے جس سے عقائد کی کيفیات کا باطنی مشاہدہ ہوتا ہے۔ تصوف ہی وہ علم ہے جو عقیدہ اور ایمان کی عملی تصدیق کرتا ہے۔ جب تصوف کے ذریعے مشاہدہ عقیدے کی تصدیق کر دے تو عین الیقین کے نتیجے میں وہ عمل وجود میں آتا ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت مضمحل اور نابود نہیں کر سکتی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔