جواب:
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے:
وات ذا القربی حقه
(بنی اسرائيل، 17 : 26)
اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو۔
یہاں پر علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ عام ہے اور جتنے بھی رشتہ دار ہوں ان کو مال دینا چاہیئے لیکن اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ قاعدہ یہ ہے "الا قرب فالا قرب". جو زیادہ قریب رشتہ دار ہے پہلے اس کو دیں، اس کے بعد جو رشتہ دار ہے پھر اس کو دیں۔ اگر مرد کے قریب والوں میں کوئی محتاج نہ ہو تو پھر بیوی کے رشتہ دار کو بھی دیں۔
امام آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اس آیت سے عموم مراد لیتے ہیں، لیکن وراثت میں بیوی کے رشتہ دارشامل نہیں ہیں۔
حدیث پاک میں آتا ہے
قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم الصدقة علی المسکين صدقة وهی علی ذی الرحم ثنتان صدقة وصلة
(احمد و ترمذی بحواله مشکوة)
مسکین پر صدقہ کرنا صدقہ ہے اور یہی صدقہ اگر ذی رحم یعنی رشتہ دار کو دے دیا جائے تو دو نیکیاں ہیں، ایک صدقہ اور دوسرے صلہ رحمی۔
لہذا کوشش ہونی چاہیئے کہ سب سے پہلے جو رشتہ دار قریب والے ہیں ان کو دے اگر ان میں کو محتاج نہ ہو تو جو اسکے بعد اس طرح پہلے قریب والے کو دینا چاہیئے دوست احباب بعد میں ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔