جواب:
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا کوئی ایک عمل یا چند اعمال ایسے نہ تھے جنہوں نے انہیں ایمان کے بلند مرتبے پر فائز کیا بلکہ ان کا ہر عمل حتی الامکان سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ قیامت تک آنے والے اہل ایمان کے لئے کامل نمونۂ ہدایت بن گئے تھے۔ صحابی ہونے کے شرف نے انہیں روئے زمین کے تمام انسانوں سے ممتاز بنا دیا اور یہ صحابیت ہی ان کے لئے وجہ امتیاز ٹھہری، یہ گویا اس بات کی دلیل بن گئی کہ انہوں نے اپنی ہر نسبت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت پر قربان کر دیا اور اپنے کردار کی ساری جہتیں اور فضیلتیں صحبت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نثار کر دیں۔
قرآن حکیم نے بھی فیض صحبت پانے والے ان جانثاران مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہی تصور دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا.
الفتح، 48 : 29
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں۔ اور آپس میں نرم دل، تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے، سجدے میں گرتے، اللہ کا فضل و رضا چاہتے ہوئے۔
یہ آیہ کریمہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے سیرت و کردار کے اس گوشے کو اجاگر کر رہی ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتباع اور غلامی کے نتیجے میں ایک تابندہ مثال بن گیا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔