جواب:
جی ہاں جائز ہے۔ اگرچہ نقد پر قیمت کچھ اور ہو اور قسطوں کی صورت میں کچھ اور، یعنی زیادہ ہو تب بھی جائز ہے۔
امام ترمذی فرماتے ہیں :
اَن يقولَ اَبيعکَ هٰذا الثوبَ بنقدٍ بعشرة و بنسيئةٍ بعشرين ولا يفارقه علٰی اَحد البيعين فاذا فارقَه علٰی احدهما فلا باس اِذا کانتِ العقدُ علٰی واحدٍ منهما.
یوں کہیے کہ میں آپ کے ہاتھ یہ کپڑا (مثلاً) نقد قیمت پر دس (10) روپے پر اور ادھار قیمت پر بیس (20) روپے میں بیچتا ہوں اور کسی ایک سودے کو متعین کر کے جدا نہ ہو اگر ایک سودے کا فیصلہ کر کے جدا ہو تو کوئی حرج نہیں۔ (ترمذی : 1 : 147)
اصل میں یہ تشریح اس حدیث پاک کی ہے جس میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع فرمایا۔
جب ثمن (روپے) اور چیز مدت متعین ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔