جواب:
آپ کے سوالنامہ کے مطابق؛ مرحوم کے ورثاء میں ایک بیوہ، بھتیجے اور بھتیجیاں شامل ہیں۔ آپ کے بقول ان کے علاوہ کوئی وارث زندہ نہیں ہے۔ اس صورت میں مرحوم کی بیوہ کو کل قابلِ تقسیم مال کا چوتھا (1/4) حصہ ملے گا اور باقی سب مال مرحوم کے بھتیجوں کو بطور عصبہ ملے گا جبکہ بھتیجیوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ قرآنِ مجید میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ
1. (النساء، 4: 12)
’’اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔‘‘
لہٰذا مرحوم کی بیوہ کو کل مال سے چوتھا حصہ دے کر باقی مال تمام بھتیجوں میں بطور عصبہ برابر تقسیم کیا جائے گا جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ.
2. البخاري، الصحيح، كتاب الفرائض، باب ميراث الولد من أبيه وأمه، ج/6، ص/2476،الرقم/6351، دار ابن كثير اليمامة
3. مسلم، الصحيح، كتاب الفرائض، باب ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فلأولى رجل ذكر، ج/3، ص/1233، الرقم/1615، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث
’’میراث اُس کے حق دار لوگوں کو پہنچا دو اور جو باقی بچے تو وہ سب سے قریبی مرد کے لیے ہے۔‘‘
مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
1. آپ کے مرحوم چچا کی بیوہ کو ان کے کل قابلِ تقسیم ترکہ سے چوتھا حصہ ملے گا۔
2. مرحوم کی بیوہ کو حصہ دے کر باقی ماندہ میراث تمام بھتیجوں میں برابر تقسیم کر دی جائے گی جبکہ بھتیجیاں محروم رہیں گی۔ یعنی ان کو چچا کی میراث سے کچھ نہیں ملے گا۔
3. مذکورہ صورت میں بھتیجیاں وارث شمار نہیں ہونگی۔ لہذا ان کو حصہ نہیں ملے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔