Fatwa Online

طلاق کے بعد لڑکی کی عدت ماں باپ کے گھر میں ہوگی یا شوہر کے گھر

سوال نمبر:6201

اگر طلاق سے پہلے ہی عورت تین ماہ سے اپنے ماں باپ کے گھر ہے تو اس صورت میں لڑکی کی عدت کا دورانیہ کیا ہوگا اور لڑکی عدت کہاں پوری کرے گی۔

سوال پوچھنے والے کا نام: زاھد مراد

  • مقام: Kunri
  • تاریخ اشاعت: 16 جولائی 2025ء

موضوع:عدت کے احکام

جواب:

عدت کا شمار ان اہم احکامِ شریعت میں ہوتا ہے جو طلاق یا وفاتِ زوج کے بعد عورت کے لیے واجب ہوتے ہیں۔ شریعتِ مطہرہ نے عدت کو محض ایک معاشرتی رسم یا وقتی پابندی نہیں بنایا، بلکہ اسے نکاح کے آثارِ شرعیہ کے اختتام کا باقاعدہ اور عبادت نما مرحلہ قرار دیا ہے۔ شرعی اصول کے مطابق عدت کا آغاز محض جسمانی علیحدگی یا باہمی ناراضگی سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق حقیقی یا حکمی فرقت یعنی طلاق یا موت کے تحقق سے ہے۔ لہٰذا اگرچہ میاں بیوی طویل عرصہ سے ایک دوسرے سے جدا زندگی گزار رہے ہوں، جب تک شرعی طور پر طلاق واقع نہ ہو یا شوہر کا انتقال نہ ہو، اس وقت تک نہ عدت لازم آتی ہے اور نہ ہی اس کی مدت کا آغاز ہوتا ہے۔ یعنی شرعی طور پر عدت کا شمار اسی وقت سے شروع کیا جائے گا جب طلاق دی گئی ہو یا شوہر کا انتقال ہوا ہو، اس سے پہلے کی علیحدگی یا ناراضگی کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ یہ مسئلہ فقہاء کے نزدیک قطعی اور اجماعی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ.

’’اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو۔‘‘

1. (الطلاق، 65: 1)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ عدت طلاق کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اگر عورت کو طلاق نہ دی گئی ہو، خواہ شوہر بیوی سے کتنی ہی مدت علیحدہ رہا ہو، عدت شروع نہیں ہوتی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے طلاق یافتہ یا بیوہ عورتوں کو عدت پوری کرنے کا حکم فرمایا ہے کہیں بھی ناراض ہو کر بیٹھی ہوئی عورتوں کو عدت پوری کرنے کا حکم نہیں فرمایا نہ ہی قرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ طلاق سے پہلے عدت پوری کی جا سکتی ہے۔ یعنی عدت کا اطلاق وقوعِ طلاق کے بعد ہی ہوتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ؕ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا.

’’اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، اور ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا فرما دیا ہو، اگر وہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، اور اس مدت کے اندر ان کے شوہروں کو انہیں (پھر) اپنی زوجیت میں لوٹا لینے کا حق زیادہ ہے اگر وہ اصلاح کا ارادہ کر لیں۔‘‘

2. (البقرة، 2: 228)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے طلاق والی عورتوں کو باقاعدہ حکم صادر فرمایا کہ وہ عدت پوری کریں۔ اور ایک مقام پر طلاق رجعی کی صورت میں عدت پوری ہونے پر اچھے طریقے سے روکنے یا بھلائی سے چھوڑنے کا حکم فرمایا ہے یعنی عدت پوری کرنا لازم ہے جو طلاق واقع ہونے پر ہی شروع ہوتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ.

’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو انہیں اچھے طریقے سے (اپنی زوجیّت میں) روک لو یا انہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو۔‘‘

3. (البقرة، 2: 231)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اس پر عمل کہ طلاق رجعی کے بعد عدت پوری ہونے تک رجوع کا حق دیتے تھے یعنی ایسا کوئی تصور نہیں ہے کہ عدت طلاق سے پہلے شمار کر لی جائے۔ مصنف ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے درج ذیل روایت نقل کی ہے:

عَنْ مَكْحُولٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعَلِيًّا، وَابْنَ مَسْعُودٍ وَأَبَا الدَّرْدَاءِ وَعُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ قَيْسٍ الأَشْعَرِيَّ كَانُوا يَقُولُونَ؛ فِي الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً، أَوْ تَطْلِيقَتَيْنِ: إنَّهُ أَحَقُّ بِهَا مَا لَمْ تَغْتَسِلْ مِنْ حَيْضَتِهَا الثَّالِثَةِ، يَرِثُهَا وَتَرِثُهُ مَا دَامَتْ فِي الْعِدَّةِ.

’’حضرت مکحول رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابو درداء، حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک یا دو طلاقیں دینے کے بعد آدمی اس وقت تک رجوع کا حق رکھتا ہے جب تک عورت تیسرے حیض کا غسل نہ کر لے۔ جب تک وہ عدت میں ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔‘‘

4. ابن أبي شيبة، المصنف، كتاب الطلاق، كتاب الطلاق ، من قال هو أحق برجعتها ما لم تغتسل من الحيضة الثالثة، ج/4، ص/158، الرقم/18899، الرياض: مكتبة الرشد

فقہائے کرام کی بھی یہی رائے ہے کہ عدت کی ابتداء طلاق کے بعد شروع ہوتی ہے:

وَابْتِدَاءُ الْعِدَّةِ فِي الطَّلَاقِ عَقِيبَ الطَّلَاقِ وَفِي الْوَفَاةِ عَقِيبَ الْوَفَاةِ.

’’طلاق کی صورت میں عدت کی ابتدا وقوع طلاق سے ہو گی اور وفات کی صورت میں عدت کی ابتدا وفات کے بعد سے ہو گی۔‘‘

5. المرغيناني، الهداية شرح البداية، ج/2، ص/30، المكتبة الإسلامية

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ عدت کا اطلاق وقوعِ طلاق سے ہوتا ہے خواہ عورت عرصہ دراز سے ناراض ہو والدین کے گھر بیٹھی ہو یعنی مدخولہ عورت پر طلاق کے بعد عدت پوری کرنا لازمی عمل ہے۔ اس لیے صورتِ مسئلہ میں لڑکی پر عدت پوری کرنا لازم ہے جو کہ تین حیض ہے اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل یعنی بچے کی پیدائش تک ہے، اگر طلاق رجعی ہے تو شوہر کے گھر میں عدت گزارے تاکہ رجوع کی کوئی سبیل بن سکے، اگر تین طلاقیں ہو چکی ہیں تو والدین کے گھر عدت گزار سکتی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 16 September, 2025 01:34:49 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/6201/