Fatwa Online

اگر شوہر خلع قبول نہ کرے تو کیا عدالتی فیصلہ سے نکاح ختم ہو جاتا ہے؟

سوال نمبر:6199

محترم مفتی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میں نے نکاح کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ کچھ عرصہ گزارا، مگر گھریلو معاملات انتہائی کشیدہ نوعیت کے تھے۔ روزانہ کے جھگڑوں سے تنگ آکر میں نے بغیر شوہر کو اطلاع دیے ان کا گھر چھوڑ دیا اور عدالت سے خلع لینے کے لیے رجوع کیا۔ مگر شوہر کو ابتدائی طور پر کوئی نوٹس نہیں بھجوایا کیونکہ مجھے اندیشہ تھا کہ وہ مجھے جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ایک ماہ بعد عدالت کی طرف سے شوہر کو نوٹس گیا، جس سے وہ مکمل طور پر باخبر ہوگیا۔ عدالتی خلع کے بعد میں نے عدت مکمل کی اور دوسرا نکاح کر لیا۔ الحمدللہ، مجھے اس نکاح سے اولاد بھی حاصل ہوئی۔ کچھ وقت بعد مجھے معلوم ہوا کہ اگر شوہر خلع کو قبول نہ کرے تو پہلا نکاح ختم نہیں ہوتا۔ اس پر میں نے سابق شوہر سے رابطہ کیا تاکہ وہ خلع کو قبول کرے یا باقاعدہ طلاق دے دے۔ اس نے مجھ سے حق مہر (5 لاکھ روپے) اور سونے کے زیورات کی واپسی کا مطالبہ کیا، جو میں نے واپس کر دیے۔ پہلے وہ دعویٰ کرتا رہا کہ اُس نے طلاق لکھ دی ہے اور گواہوں کے سامنے بھی طلاق دی ہے، اور یہ بھی کہا کہ وہ کاغذات مجھے بھجوا دے گا۔ مگر جب میں نے سب کچھ واپس کر دیا تو وہ مکر گیا۔ ایک خاتون گواہ (محترمہ نسرین) موجود ہیں جن کے سامنے اس نے کئی بار طلاق کے الفاظ ادا کیے۔ ان کے مطابق اُس نے 20 سے زائد بار طلاق کے الفاظ دہرائے۔ اس کے علاوہ خود وہ شخص میرے سامنے بھی اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ اس نے طلاق دی، البتہ اب وہ براہ راست میرے سامنے طلاق کے الفاظ دہرانے سے انکاری ہے، اور مزید مطالبات کر رہا ہے اور مجھ پر دوبارہ رجوع (واپسی) کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ میری گزارش ہے کہ ان دو سوالات میں میری شرعی رہنمائی فرمائیں: 1. سابقہ شوہر خاتون گواہ (محترمہ نسرین) کے سامنے دو مختلف مواقع پر طلاق کے الفاظ ادا کر چکا ہے اور مذکورہ خاتون نے لکھی ہوئی طلاق بھی دیکھی ہے، تو کیا اس صورت میں طلاق واقع ہو چکی ہے؟ 2. دوسرا نکاح جو عدت مکمل کرنے کے بعد کیا گیا، کیا وہ شرعاً جائز ہوا؟ یا اب ہمیں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا، یا یہی نکاح کافی ہوگا؟ براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں تاکہ شرعی اطمنان اور درستگی کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکوں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: Sheher bano

  • مقام: Gulberg, Lahore
  • تاریخ اشاعت: 19 جون 2025ء

موضوع:بغیر زمرہ  |  خلع کے احکام

جواب:

صورت مسئلہ کے مطابق؛ اگر واقعی آپ نے گھریلو معاملات میں انتہائی کشیدگی اور جھگڑوں کی وجہ سے اپنے شوہر کو بتائے بغیر عدالت میں اس سے علیحدگی کا دعویٰ دائر کیا مگر بعد ازاں عدالتی نوٹس سے وہ باخبر ہو گیا تھا تو اس صورت میں عدالتی فیصلہ سے آپ کا نکاح ختم ہو گیا تھا۔ لہٰذا اب آپ کو سابق شوہر سے طلاق لینے کی ضرورت نہیں ہے اور آپ کا دوسرا نکاح بعد از عدت بالکل درست اور جائز ہے۔ اس لیے مسماۃ نسرین کے سامنے طلاقیں دیں یا نہیں دیں آپ کو اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ دوسرے شوہر کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی جاری رکھیں شرعاً جائز ہے اور دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔

یہاں ایک غلطی آپ نے کی کہ آپ نے شرعی رہنمائی لیے بغیر حق مہر اور زیورات سابق شوہر کو واپس کر دیئے جبکہ وہ ان کا حقدار نہیں تھا کیونکہ جب آپ نے سابق شوہر کی خرابی کی وجہ سے تنسیخ نکاح کی ڈگری حاصل کی ہے تو اس صورت میں وہ حق مہر اور زیورات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی آپ کو واپس کرنے چاہیئے تھے۔ اس مسئلہ کی وضاحت درج ذیل ہے:

اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیویوں پر اس طرح کا ظلم کرتے تھے۔ نہ بیوی بناکر عزت سے ان کو بساتے، نہ طلاق دے کر ان کو قید نکاح سے آزاد کرتے۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ اپنے ساتھ بساتے کیوں نہیں تو جواب دیتے ہم نے طلاق دے دی ہے۔ اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ دوسری جگہ پسند کی شادی کیوں نہیں کرنے دیتے جواب ہوتا ہم نے عدت کے اندر رجوع کرلیا تھا۔ لہٰذا نکاح بحال رہا۔ عمر بھر یہی ظلم روا رکھتے۔ آج بعض مسلمان کہلانے والے ببانگ دہل کہتے ہیں، نہ رکھیں گے نہ چھوڑیں گے یہ عورت پر بدترین ظلم ہے۔

قرآن کریم نے اس ظلم کا خاتمہ کیا اور طلاق کی حد مقرر کردی۔ اگر کوئی ایک یا دو بار واضح الفاظ میں طلاق دے دے تو عدت کے اندر نیک نیتی سے یا تو رجوع کرلے اور آئندہ بیوی کو تنگ نہ کرے، بیوی بناکر پاس رکھے یا مدت گزرنے دے تاکہ نکاح ختم ہوجائے اور عورت اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ.

(البقرہ، 2: 229)

’’یہ طلاق (رجعی) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘

دوسرے مقام پر فرمایا کہ عورتوں کو تکلیف دینے کے لیے نہ روکو کہ ان پر زیادتی کرتے رہو اور ایسا کرنا اپنی جانوں پر ظلم اور اللہ تعالیٰ کے احکام کا مذاق اڑانا قرار دیا ہے۔

جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا.

(البقرة، 2: 231)

’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آ پہنچیں تو انہیں اچھے طریقے سے (اپنی زوجیّت میں) روک لو یا انہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو، اور انہیں محض تکلیف دینے کے لیے نہ روکے رکھو کہ (ان پر) زیادتی کرتے رہو اور جو کوئی ایسا کرے پس اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا، اور ﷲ کے احکام کو مذاق نہ بنا لو۔‘‘

اس لیے جب عورت کو اس کے حقوق سے محروم کیا جائے۔ شوہر اس پر ظلم کرے اور اُسے نہ بیوی بناکر رکھے نہ طلاق دے پھر کوئی طریقہ تو ہو جو اس کو ظلم کی چکی میں پسنے سے بچائے اور وہ حکومت اور اس کی قائم کردہ عدلیہ ہے۔ چنانچہ مظلومہ عورت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔ عدالت کا فرض ہے کہ پوری تحقیق کے بعد اگر یہ ظلم ثابت ہوجائے یعنی خاوند عدل و انصاف کا راستہ نہ اپنائے اور نہ عورت کو طلاق دے تو ایسی صورت میں قاضی یا فیملی کورٹ کا جج فوراً طلاق دلوائے یا تنسیخ نکاح کردے تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو۔ یہ اسلام ہے اور یہی عدل و انصاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ظلم ختم کیا جب آپ ﷺ کی بارگاہ میں کسی عورت نے اپنے شوہر سے علیحدگی کا مطالبہ کیا تو آپ ﷺ نے ہمیشہ بلاتاخیر مسئلہ کا حل کرایا ہے۔ اسلام میں سب سے پہلا خلع کا واقعہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کا ہے جس کے بارے میں متعدد روایات ہیں لیکن اختصار کی خاطر صرف ایک روایت درج ذیل ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةُ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَنْقِمُ عَلَى ثَابِتٍ فِي دِينٍ وَلاَ خُلُقٍ، إِلَّا أَنِّي أَخَافُ الكُفْرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَرَدَّتْ عَلَيْهِ، وَأَمَرَهُ فَفَارَقَهَا.

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئی کہ یارسول ﷲ! میں ثابت کے دین یا اخلاق کی بنا پر اُن کے پاس رہنے سے انکار نہیں کرتی بلکہ مجھے کفر کا ڈر ہے۔ اس پر رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: تم اُن کا باغ واپس کردو گی؟ اُس نے جواب دیا: ہاں، لہٰذا اُس نے وہ باغ واپس کردیا اور آپ ﷺ نے اُسے جدا کرنے کا حکم دیا۔‘‘

3. البخاري، الصحيح، كتاب الطلاق، باب الخلع وكيف الطلاق فيه، 5: 2022، الرقم: 4973، بيروت: دار ابن كثير اليمامة

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ اور دیگر روایات میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے اُن کے دین اور اچھے اخلاق کی تعریف کی ہے لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ مجھے کفر کا ڈر ہے یعنی میرا دل ان کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے نفرت پرورش پا رہی ہے اور نتیجہ میں کوئی غلط قدم اٹھنے کا ڈر ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ انہیں قد کاٹھ اور شکل وصورت سے پسند نہیں کرتیں تھیں۔ اس لیے ان کا کہنا کہ مجھے کفر کا ڈر ہے سے مراد یہ بھی ہے کہ میں کفرانِ نعمت نہیں کرنا چاہتی کہ ثابت بن قیس میرے ساتھ اچھا سلوک کریں اور میں اُن کو دل سے پسند نہ کروں۔ مختصر یہ کہ جب عورت کسی بھی وجہ سے شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو اس کو علیحدہ کر دینا چاہیے۔ حضرت خنساء بنتِ خِذام اَنصاریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

إِنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذَلِكَ فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ نِكَاحَهَا.

’’ان کے والد ماجد نے ان کی شادی کر دی جبکہ وہ بیوہ تھیں، مگر اُنہیں یہ شادی ناپسند تھی۔ سو وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئیں اور آپ ﷺ نے اُن کا نکاح منسوخ فرما دیا۔‘‘

4. البخاري، الصحيح، كتاب الإكراه، باب لا يجوز نكاح المكره، 6: 2547، الرقم: 6546

5. أبو داود، السنن، كتاب النكاح، باب في الثيب، 2: 233، رقم: 2101، بيروت: دار الفكر

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جب بطور میاں بیوی رہنا ممکن نہ ہو تو مجاز اتھارٹی نکاح منسوخ کر سکتی ہے۔ امام محمد بن عبد الواحد المعروف ابن الہمام فرماتے ہیں:

فَإِذَا امْتَنَعَ كَانَ ظَالِمًا فَنَابَ الْقَاضِي عَنْهُ فِيهِ فَيُضَافُ فِعْلُهُ إلَيْهِ.

’’جب خاوند طلاق نہ دے تو ظالم ہے، لہٰذا قاضی اس مسئلہ میں خود خاوند کا قائم مقام ہو کر تفریق کر دے اب قاضی کا فعل خاوند کی طرف منسوب ہوگا۔‘‘

6. ابن الهمام، شرح فتح القدیر، ٤: ٣٠٠، بیروت: دار الفکر

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ ظلم کا خاتمہ کرنے کے لیے قاضی یکطرفہ فیصلہ دے سکتا ہے تا کہ عورت مزید ظلم کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ صاحبان فتاویٰ ہندیہ لکھتے ہیں:

إنْ اخْتَارَتْ الْفُرْقَةَ أَمَرَ الْقَاضِي أَنْ يُطَلِّقَهَا طَلْقَةً بَائِنَةً فَإِنْ أَبَى فَرَّقَ بَيْنَهُمَا... وَالْفُرْقَةُ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ.. وَلَهَا الْمَهْرُ كَامِلًا وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ بِالْإِجْمَاعِ إنْ كان الزَّوْجُ قد خَلَا بها وَإِنْ لم يَخْلُ بها فَلَا عِدَّةَ عليها وَلَهَا نِصْفُ الْمَهْرِ إنْ كان مُسَمًّى وَالْمُتْعَةُ إنْ لم يَكُنْ مُسَمًّى.

’’اگر بیوی جدائی چاہتی ہے تو قاضی (عدالت) اس کے خاوند کو طلاق بائن دینے کا حکم دے۔ اگر انکار کرے تو قاضی دونوں میں تفریق کردے یہ فرقت طلاق بائن ہوگی۔ اس عورت کو پورا مہر ملے گا اور بالاتفاق اس پر عدت لازم ہے اگر خاوند نے اس سے خلوت صحیحہ کی ہے اور اگر خلوت صحیحہ و قربت نہیں کی تو عورت پر عدت نہیں اور اگر مہر مقرر تھا تو اس کا نصف دینا ہوگا اور مہر مقرر نہ تھا تو حسب توفیق کپڑوں کا جوڑا اور تحائف وغیرہ۔‘‘

7. الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندیة، ا: ٥٢٤، دار الفکر

خلاصہ کلام

اسلام کسی کو کسی پر ظلم کرنے اور اس کے حقوق پامال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا ہے۔ اگر بیوی حقوق زوجیت سے خاوند کو محروم کرے تو خاوند کے پاس حقِ طلاق ہے اور دیگر حاکمانہ حقوق بھی ہیں، جنہیں بروئے کار لاکر وہ اپنے حقوق وصول کرسکتا ہے۔ بصورت دیگر حقِ طلاق استعمال کرکے اس سے جان چھڑا سکتا ہے۔ اور اگر خاوند، بیوی کے حقوق پامال کرے نان نفقہ نہ دے، حقوق زوجیت سے اسے محروم کرے۔ نہ امساک بمعروف أو تسریح باحسان پر عمل کرے اور ساری عمر نہ بیوی بنا کر رکھے، نہ آزاد کرے تو یہ بیوی پر ظلم ہوا، قرآن کریم نہ کسی کو ظالم بننے کی اجازت دیتا ہے۔ نہ مظلوم لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ’’نہ تم ظالم بنو اور نہ تم پر ظلم ہو‘‘۔ اس لیے عورت ہو یا مرد دونوں کے حقوق و فرائض ہیں ایک فریق کے حقوق دوسرے فریق کے فرائض میں شامل ہیں، مرد کے حقوق عورت پورے کرے اور عورت کے مرد، پھر ہی زندگی پر سکون گزر سکتی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 22 June, 2025 12:20:07 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/6199/