جواب:
امت محمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ سہولت عطا فرمائی ہے کہ تمام زمین کو مسجد قرار دیدیا ہے، لہٰذا اب مسلمان ہر پاک جگہ پر نماز ادا کر سکتے ہیں۔ حدیث مبارکہ کے مطابق ہر پاک جگہ مسجد ہے جیسا کہ حضرت جابر بن عبداﷲ k سے ایک روایت ہے کہ جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا فرمائی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ان پانچ چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ میرے لیے تمام زمین مسجد ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا وَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ فَلْيُصَلِّ.
’’اور زمین کو میرے لیے مسجد اور پاک کرنے والی بنا دیا گیا تاکہ میرے امتی کو جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے وہیں پڑھ لے۔‘‘
البخاري، الصحيح، كتاب الصلاة، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم جعلت لي الأرض مسجدا وطهورا، ج/1، ص/168، الرقم/427، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
اس حدیث مبارکہ کے مطابق ہر پاک جگہ نماز پڑھنا جائز ہے خواہ کوئی شخص اکیلا نماز ادا کرے یا باجماعت نماز ہو دونوں صورتوں میں نماز ادا ہو جاتی ہے لیکن مخصوص مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔ اس لیے نماز پنجگانہ باجماعت ادا کرنے کے لیے جو جگہ خاص کر دی جائے اور صرف عبادات کے لیے وقف کی گئی ہو تو اسے اصطلاح میں مسجد کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ موسوعہ فقہیہ میں تفسیر نسفی کے حوالے سے لکھا ہوا ہے:
أَنَّهَا الْبُيُوتُ الْمَبْنِيَّةُ لِلصَّلاَةِ فِيهَا لِلَّهِ فَهِيَ خَالِصَةٌ لَهُ سُبْحَانَهُ وَلِعِبَادَتِهِ.
’’مساجد وہ گھر ہیں جو اس لئے بنائے گئے ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے لیے نماز پڑھی جائے، چنانچہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کی عبادت کے لئے خاص ہیں۔‘‘
وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية، الموسوعة الفقهية الكويتية، ج/37، ص/194، الكويت: دارالسلاسل
مذکورہ بالا تصریحات کے مطابق ہر پاک جگہ نماز ہو جاتی ہے لیکن اصطلاح میں مسجد کا نام اسی جگہ کو دیا جائے گا جو خالص عبادت کے لیے وقف کر دی گئی ہو۔ اگر کوئی جگہ عارضی مسجد قرار دی جائے تو اسے بعد میں خریدا اور بیچا جا سکتا ہے، فقہاء کرام نے یہاں تک لکھا ہے کہ وقف مسجد ویران ہو جائے تو اسے بھی فروخت کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ فقہ حنفی کے امام حضرت ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وَلِأَهْلِ الْمَحَلَّةِ تَحْوِیلُ بَابِ الْمَسْجِدِ خَانِیَّةٌ وَفِي جَامِعِ الْفَتَاوَی لَهُمْ تَحْوِیلُ الْمَسْجِدِ إلَی مَکَانِ آخَرَ إنْ تَرَکُوهُ بِحَیْثُ لَا یُصَلَّی فِیهِ، وَلَهُمْ بَیْعُ مَسْجِدٍ عَتِیقٍ لَمْ یُعْرَفْ بَانِیهِ وَصَرْفُ ثَمَنِهِ فِي مَسْجِدٍ آخَرَ.
محلے دار مسجد کا دروازہ بدل سکتے ہیں، یہی بات فتاویٰ خانیہ میں ہے اور جامع الفتاوی میں بھی ہے کہ اہل محلہ مسجد کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ بدل سکتے ہیں۔ اگر اسے اس حال میں چھوڑ دیں کہ اس میں نماز نہیں پڑھی جاتی۔ ان کو یہ بھی اختیار ہے پرانی مسجد بیچ دیں جس کے بانی کا اتہ پتہ نہیں۔ اور اس کی قیمت دوسری مسجد پر خرچ کر لیں۔
ابن عابدین شامي، رد المحتار، 4: 357، بیروت: دار الفکر للطباعة والنشر
صورتِ مسئلہ کے مطابق مسجد کی تعمیر نو کے دوران عارضی جگہ پر نماز پنجگانہ اور جمعہ وعیدین ادا کرنے کی صورت میں وہاں عبادات کا ثواب مسجد کی طرح ہی ملے گا کیونکہ اسے عارضی مسجد قرار دیا گیا ہے مگر وہ پلاٹ وقف مسجد کے حکم میں نہیں ہو گا ۔ لہٰذا اس جگہ کو بعد میں بیچ سکتے ہیں اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال میں بھی لا سکتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اب قیامت تک کے لیے حضور ﷺ کے صدقے ہر پاک جگہ مسجد ہے لیکن جب تک کسی جگہ کو مسجد کے لیے وقف نہ کیا جائے یا کوئی وقف شدہ مسجد ویران ہو جائے تو دونوں صورتوں میں اس جگہ کو دیگر استعمالات میں لایا جا سکتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔