جواب:
ارشاد باری تعالٰی ہے
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ ؕ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا.
(النساء، 7/4)
مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے۔
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالٰی نے والدین کے ترکہ کے بارے میں بتایا ہے کہ ورثاء میں مردوں کی طرح عورتوں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ اور پھر یہ بھی بتایا کہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں تمام ورثاء حقدار ہیں۔
اس لیے آپ کے والد کے وصال ہوتے ہی وہ مال ان کی بیوہ، بیٹے اور بیٹیوں کا حق ہے۔ یہ حق وفات کے ساتھ ہی منتقل ہو جاتا ہے۔
لہذا مذکورہ مکان اور دکان اب مرحوم کے تمام ورثاء کا حق ہے۔ ہر وارث اپنے حق سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
باقی ورثاء سے اجازت لیے بغیر مکان اور دکان سے صرف ایک بیٹے اور بیٹی کا فائدہ اٹھانا اور باقی ورثاء کو ان کے حق سے محروم رکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
اگر باقی ورثاء اپنا حصہ وصول کر کے انہیں دینا چاہیں تو کوئی ممانعت نہیں ہے مگر وہ قبضہ کر کے باقی ورثاء کا حصہ اپنے استعمال میں نہیں لا سکتے۔
آپ نے یہ بھی معلوم کیا کہ وفات کے کتنے عرصہ بعد وراثت تقسیم کی جا سکتی ہے۔
اس کی اسلام نے کوئی حد مقرر نہیں کی لیکن مناسب یہی ہے کہ کم از کم میت کی تجہیز و تدفین کے بعد ہی بات کی جائے تو بہتر عمل ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔