Fatwa Online

ولد الحرام (زنا سے پیدا ہونے والے بچے) كے نسب کے کیا احكام ہیں؟

سوال نمبر:6139

السلام علیکم! ایک شادی شدہ خاتون ہے، اس نے کسی دوسرے شخص کے ساتھ ہمبستری کی اور اس سے اولاد ہوگئی، اب اسلام میں اس اولاد کا کیا حکم ہے؟ ماں جس شخص کی طرف بچے کو منسوب کرتی ہے کیا اس کا نسب وہی ہوگا؟ بچے کی ولدیت کیا لکھی جائے گی؟ ولد الحرام کے احکام بیان فرمائیں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: حافظ اقبال اعظم

  • مقام: پیرس
  • تاریخ اشاعت: 12 جنوری 2023ء

موضوع:زنا و بدکاری

جواب:

جب شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے مگر اس کے پاس چار عینی گواہ موجود نہ ہوں تو پھر بذریعہ عدالت لعان کرایا جاتا ہے اور لعان کے بعد شوہر طلاق دیتا ہے یا عدالت ان کے درمیان تفریق کر دیتی ہے۔ اگر عورت حاملہ ہو جائے اور شوہر اس بچے کے نسب کی بھی نفی کر دے تو لعان کے بعد وہ بچہ ماں کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ایسا معاملہ پیش کیا گیا، آپ ﷺ نے لعان کے بعد ان کے درمیان تفریق فرما دی تھی۔ زوجین کے درمیان لعان کرنے کا مکمل طریقہ قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَo وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَo وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ هَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَo وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَo وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌo

النور، 24: 6-10

’’اور جو لوگ اپنی بیویوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنی ذات کے کوئی گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی بھی ایک شخص کی گواہی یہ ہے کہ (وہ خود) چار مرتبہ اللہ کی قَسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (الزام لگانے میں) سچا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو۔ اور (اسی طرح) یہ بات اس (عورت) سے (بھی) سزا کو ٹال سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر (خود) گواہی دے کہ وہ (مرد اس تہمت کے لگانے میں) جھوٹا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب ہو اگر یہ (مرد اس الزام لگانے میں) سچا ہو۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو تم ایسے حالات میں زیادہ پریشان ہوتے) اور بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا بڑی حکمت والا ہے۔‘‘

حدیث مبارکہ میں ہے کہ میاں بیوی سے ایک دوسرے پر لعان کے بعد آپ ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کرا دی، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:

لاَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ رَجُلٍ وَامْرَأَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا.

البخاري، الصحيح، كتاب الطلاق، باب التفريق بين المتلاعنين، ج/5، ص/2036، الرقم/5008، بیروت: دار ابن کثیر الیمامة- مسلم، الصحیح، كتاب اللعان، ج/2، ص/1080، الرقم/1457، بیروت: دار احیاء التراث العربي

’’حضورنبی اکرم ﷺ نے انصار کے ایک مرد اور عورت سے لعان کروایا اور اُن دونوں کے مابین تفریق کرا دی۔‘‘

لعان کے بعد بچہ عورت کی طرف منسوب ہو جاتا ہے کیونکہ مرد تو اس کے نسب کا انکار کر دیتا ہے، اسی وجہ سے لعان کا عمل کرایا جاتا ہے۔ بچہ زانی کی طرف بھی منسوب نہیں کیا جاتا کیونکہ احادیث میں زانی کے لیے پتھر ہیں یعنی اس کے لیے ذلت ورسوائی رکھی ہے، بچے کو اس کی طرف نسبت نہیں دی جاتی، یہی حکم ہے اور اسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔

اگر شوہر لعان نہ کرے تو بچہ اسی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں بچہ اپنے والد یعنی جس کے بستر پر پیدا ہوا ہو اسی سے نان ونفقہ لے گا اور اس کی وراثت سے حصہ بھی پائے گا۔ جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ j سے روایت ہے کہ عتبہ بن ابو وقاص نے سعد بن ابو وقاص سے وعدہ لیا کہ زمعہ کی لونڈی کا بیٹا میرا ہے اس پر قبضہ کر لینا۔ فتح مکہ کے سال سعد بن ابو وقاص نے اسے پکڑ لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے اور اس کے متعلق مجھ سے عہد لیا گیا ہے۔ عبداﷲ بن زمعہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور ان کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ دونوں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔ سعد عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! میرا بھتیجا ہے اور اس کے متعلق مجھ سے عہد لیا گیا ہے۔ عبد بن زمعہ نے کہا کہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اُن کے بستر پر ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے عبد بن زمعہ! یہ تمہارا ہے۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ.

البخاري، الصحیح، كتاب الفرائض، باب الولد للفراش حرة كانت أو أمة، ج/6، ص/2481، الرقم/6368- مسلم، الصحیح، كتاب الرضاع، باب الولد للفراش وتوقي الشبهات، ج/2، ص/1080، الرقم/1457

’’بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر ہو اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:

الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ.

مسلم، الصحیح، كتاب الفرائض، باب الولد للفراش حرة كانت أو أمة، ج/2، ص/1081، الرقم/1458، أحمد بن حنبل، المسند، ج/2، ص/280، الرقم/7749، مصر: مؤسسة قرطبة

’’بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر ہو اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔‘‘

مذکورہ بالا تصریحات کے مطابق بچہ اسی کا ہوتا ہے جس کی عورت منکوحہ ہوتی ہے جب تک کہ وہ مرد خود اس بچے کے نسب کا انکار نہ کر دے۔ اگر مرد بچے کے نسب کا انکار کر دے تو شرعی طریقہ کے مطابق لعان کے بعد بچہ عورت کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے، اس صورت میں مرد اس بچے کے نان ونفقہ کا ذمہ دار نہیں رہتا اور نہ ہی ایسا بچہ مرد کی وراثت سے حصہ پاتا ہے۔ اگر مرد بچے کے نسب کا انکار نہ کرے تو بچہ اسی کا شمار ہوگا، اس بچے کا نان ونفقہ بھی مرد کے ذمہ ہوگا اور بچہ وراثت سے حصہ بھی پائے گا۔

آج کے دور میں اگر شوہر بچے کے نسب کی نفی کرے جب کہ بیوی دعویٰ کرے کہ بچہ میرے شوہر کا ہی ہے اور مستند میڈیکل رپورٹ سے بچے کا نسب جانچنے کا مطالبہ کرے تو میڈیکل ٹیسٹ کرا کے بھی بچے کا نسب ثابت ہونے پر بچے کا نسب صحیح شمار کیا جائے گا کیونکہ دور جدید میں ایسا معلوم کرنا ممکن ہو چکا ہے۔ اگر ہر صورت حرامی ثابت ہو جائے تو ولد حرام صرف اپنی والدہ کی طرف منسوب ہوتا ہے اور ماں بیٹا دونوں ایک دوسرے کی میراث سے حصہ پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ولد حرام پر دیگر احکام دوسرے لوگوں کی طرح ہی لاگو ہوتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 18 April, 2024 07:45:09 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/6139/