Fatwa Online

مسلکی اختلاف کی بنیاد پر قطع رحمی کرنا کیسا ہے؟

سوال نمبر:6124

السلام علیکم مفتی صاحب! کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اِس بارے میں کہ زید وہابیوں سے رشتےداری نہیں رکھتا لیکِن زید کے ایک رشتےدار جو سنی صحیح العقیدہ ہیں لیکن وہ لوگ ایک وہابی سے بات چیت رکھتے ہیں تو کیا زید پر یہ واجب ہے کہ وہ ان رشتہ داروں سے بھی رشتے ناطے توڑ لے جو وہابی سے بات چیت رکھے ( وہ رشتے دار سنی صحیح العقیدہ ہیں)۔

سوال پوچھنے والے کا نام: عمران خان

  • مقام: ہندوستان
  • تاریخ اشاعت: 14 جنوری 2023ء

موضوع:معاشرت

جواب:

کوئی بھی مسلمان جو اسلام کے بنیادی عقائد اور ضروریاتِ دین کا قائل اور اہلِ قبلہ میں سے ہونے کا مدعی ہے اُسے دائرۂ اسلام سے خارج سمجھنا کسی طور درست نہیں۔ مسلمان مسالک اور فرقوں میں اختلافات نظری و فروعی نوعیت کے ہیں، ایمانیات اور عبادات کی اصل اِن مسالک کے نزدیک ایک ہی ہے۔ فروعی اختلافات کو بنیاد بنا کر کسی مسلک کا سماجی بائیکاٹ کرنا اسلام کی روحِ وحدت کے خلاف ہے۔ اس لیے کوئی بھی شخص جو:

  • اللہ تعالیٰ کی ذات، اسماء و صفات اور افعال کا منکر نہیں
  • اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات، اسماء اور افعال میں کسی کو اس کا شریک نہیں جانتا
  • اُن امور کی تکذیب نہیں کرتا جن کی خبر اللہ تعالیٰ نے غیب سے دی ہے، جیسے تقدیر، فرشتوں، جنت و دوزخ، بعث بعد الموت، میزان، حساب اور جنات وغیرہ
  • نبی اکرم ﷺ یا کسی پیغمبر کی نبوت و رسالت کا منکر نہیں ہے یا نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی کو پیغمبر نہیں مانتا
  • قرآن مجید یا الہامی کتب جیسے تورات، انجیل، زبور یا دیگر صحائف میں سے کسی کو جھٹلا نہیں رہا
  • ثابت شدہ امورِ دین جیسے زنا، سود، شراب وغیرہ کی حرمت یا نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ کا وجوب میں سے کسی کا انکار نہیں کرتا
  • اللہ تعالیٰ کی ذات اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں مزاح و تخفیف کا رویہ نہیں اپناتا اور اُن کا مذاق نہیں اڑاتا
  • اپنے ارادہ و اختیار سے کوئی ایسا فعل انجام نہیں دیتا جو دین کی تکذیب کے زمرے میں آتا ہو، جیسے کفار کے مذہبی شعار کو اپنانا، اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ ﷺ یا کلامِ الٰہی کی اہانت کرنا، کسی باطل عقیدے یا اُس کے حامل گروہ کی طرف اپنی نسبت کرنا
  • دین کے کسی قطعی، واضح اور بدیہی حکم کی ایسی تاویل نہیں کرتا جو اجماعِ امت کے خلاف اور بےبنیاد ہو اور شریعت کسی دوسرے حکمِ قطعی سے ٹکرا رہی ہو

تو ایسے شخص کو مسلمان ہی سمجھا جائے گا اور اس سے قطع تعلقی یا قطع رحمی کرنا کسی طور جائز نہیں ہے۔

مذکورہ تفصیل صرف نفس مسئلہ اور اس کی حساسیت سمجھانے کیلئے لکھی گئی ہے، کسی کے قول و فعل کی مذکورہ نکات سے تطبیق صرف ماہر و مستند اہلِ فتویٰ کا کام ہے، عامۃ الناس کا کسی ایک مسلمان یا مسلمانوں کے کسی پورے گروہ کو کافر، گستاخ یا مشرک بنا کر اس سے اظہارِ برأت اور سوشل بائیکاٹ کسی طور بھی کرنا جائز نہیں ہے۔

قطع رحمی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو سخت ناپسند ہے اور اسے کے متعلق سخت وعیدیں وارد ہیں:

وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ۙ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ۝

(الرَّعْد، 13 : 25)

اور جو لوگ اللہ کا عہد اس کے مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور ان تمام (رشتوں اور حقوق) کو قطع کر دیتے ہیں جن کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم فرمایا ہے اور زمین میں فساد انگیزی کرتے ہیں انہی لوگوں کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر قطع رحمی کو فساد فی الارض جیسے گھناؤنے جرم کے ساتھ ذکر کیا ہے اور اسے منافقت کی علامت قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:

لَايَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعُ رَحِمٍ.

مسلم، الصحيح، كتاب البر والصلة والآداب، باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها، ج/4، ص/1981، الرقم/2556، بيروت: دار إحياء التراث العربي

’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘

مذکورہ بالا تصریحات کے مطابق قطع تعلقی جائز نہیں ہے۔ اس لیے فروعی اختلافات کی بنیاد پر کسی مسلک کے مسلمانوں سے قطع تعلق کرنا حرام عمل ہے۔ اس لیے زید کو چاہیے کہ وہ کسی مسلمان سے دوسرے مسلک سے ہونے یا دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے کی وجہ سے تعلق نہ توڑے۔ اپنے مسلک پر قائم رہے لیکن دوسروں کو اپنے مسلک پر رہنے کا حق دے۔ قطع تعلقی کر کے گناہ عظیم کا مرتکب نہ ہو، کسی کے نظریات میں بگاڑ ہے تو اُسے دلیل سے سمجھائے اور اُسے راہِ راست پر لانے کی کوشش کرے مگر فساد انگیزی سے پرہیز کرے اور دوسروں کو بھی اچھائی کی دعوت دے۔

اس مسئلہ کی وضاحت کیلئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟‘ کا مطالعہ کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 21 November, 2024 05:32:52 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/6124/