Fatwa Online

میاں بیوی میں علیحدگی کی صورت میں بچوں کی پرورش کا حق کس کا ہے؟

سوال نمبر:6116

السلام علیکم مفتی صاحب! میری زوجہ نے ساڑھے تین سال پہلے عدالتی خلع لیا، اور ہمارے 6 سال کے بیٹے کو میرے غیرموجوگی میں گھر سے لیکر چلی گئی۔ ہمارے دو بچے ایک 12 سال کا اور دوسرا 10 سال کا ہے، وہ میرے پاس ہیں۔ اب میرے سابقہ اہلیہ اور ان بچوں کی ماں نے عدالت میں کیس دائر کیا ہے کہ وہ ان دونوں بچوں کو بھی مجھ سے لینا چاہتی ہے۔ دونوں بچے اس کے ساتھ رہنے پر رضامند نہیں ہیں۔ براہ کرم شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ بچے کتنے سال کی عمر میں والد کے ساتھ رہ سکتے ہیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد نوید

  • مقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 15 دسمبر 2022ء

موضوع:اولاد کے حقوق

جواب:

اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے حق کو شرعی اصطلاح میں حقِ حضانت (حضانة الطفل/Child Custody) کہتے ہیں۔ تمام رشتوں میں حقِ حضانت کی سب سے زیادہ مستحق بچے کی ماں ہے، خواہ وہ زوجیت میں ہو یا طلاق یافتہ ہو۔ ماں کیلئے حقِ حضانت میں ترجیح کے حوالے سے فقہاء نے درج ذیل فرمانِ الٰہی سے استدلال کیا ہے:

وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ.

البقرۃ، 2: 233

اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہیے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ صغر سنی میں بچے کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے۔ فقہاء کرام نے مذکورہ آیت مبارکہ کے ساتھ درج ذیل احادیث سے بھی استدلال کیا ہے، جو حقِ حضانت میں ماں کو ترجیح ملنے کا مفہوم رکھتی ہیں۔ چنانچہ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے طریق سے روایت کرتے ہیں:

إِنَّ امْرَأَۃً قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ ابْنِي هٰذَا کَانَ بَطْنِي لَهٗ وِعَاءً، وَثَدْیِي لَهٗ سِقَاءً، وَحِجْرِي لَهٗ حِوَاءً، وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ یَنْتَزِعَهٗ مِنِّي. فَقَالَ لَهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنْتِ أَحَقُّ بِہٖ مَا لَمْ تَنْکِحِي.

1۔ احمد بن حنبل، المسند، 2: 246، رقم: 6716
2۔ ابو داؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب من أحق بالولد، 2: 263، رقم: 2276

ایک عورت عرض گزار ہوئی: یا رسول اللہ! یہ میرا بیٹا ہے۔ میرا پیٹ اِس کا برتن تھا، میری چھاتی اس کا مشکیزہ تھی اور میری گود اس کی رہائش گاہ تھی۔ اِس کے والد نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اَب وہ اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس خاتون سے فرمایا: تم اس بچے کی زیادہ حق دار ہو جب تک تم (کسی اور سے) نکاح نہ کر لو۔

امام مرغینانیؒ فرماتے ہیں:

لِأَنَّ الْأُمَّ أَشْفَقُ وَأَقْدَرُ عَلَی الْحَضَانَةِ فَکَانَ الدَّفْعُ إِلَیْھَا أَنْظَرَ، وَإِلَیْہِ أَشَارَ الصِّدِّیْقُ رضی الله عنه بِقَوْلِہٖ: رِیْقُھَا خَیْرٌ لَهٗ مِنْ شَھْدٍ وَعَسَلٍ عِنْدَکَ یَا عُمَرُ.

مرغینانی، الہدایۃ، 2: 37

اس لیے کہ ماں بچے کے حق میں سب سے زیادہ شفیق ہوتی ہے اور نگرانی اور حفاظت پر مرد کی نسبت زیادہ قدرت رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے بچے کو ماں کے سپرد کرنا زیادہ مفید ہے۔ اسی شفقت کی طرف حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے کہ اے عمر! بچے کی ماں کا لعابِ دہن بچے کے حق میں تمہارے شہد سے بھی زیادہ شیریں ہوگا۔

امام شافعیؒ فرماتے ہیں:

فَلَمَّا کَانَ لَا یَعْقِلُ کَانَتِ الْأُمُّ أَوْلٰی بِہٖ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ حَقٌّ لِلْوَلَدِ لَا لِأَبَوَیْنِ، لِأَنَّ الْأُمَّ أَحْنٰی عَلَیْہِ وَأَرَقُّ مِنَ الْأَبِّ.

شافعی، الأم، 8: 235

پس جب بچہ ناسمجھ ہو تو ماں اس کی پرورش کی زیادہ حق دار ہے اس لیے کہ یہ بچے کا حق ہے، والدین کا نہیں۔ کیونکہ والدہ بچے کے حق میں باپ کی نسبت زیادہ نرم دل اور رقیق ہوتی ہے (لہٰذا ماں بچے کی پرورش کی زیادہ حق دار ہے)۔

امام ابن ہمامؒ بیان کرتے ہیں:

ولا تجبر علیه أی علی أخذ الولد اذا أبت أولم تطلب الا أن لا یکون لاولد ذو رحم محرم سوی الام علی خضانته کیلا یغوث حق الولد أصلا.

ابن ہمام، فتح القدیر، 4: 184

اگر ماں بچہ لینے سے انکار کر دے یا مطالبہ نہ کرے تو اس پر جبر نہیں ہوگا۔ ہاں اگر بچے کا ماں کے سوا کوئی ذی رحم محرم نہیں، تو اس وقت ماں کو بچے کی پرورش پر مجبور کیا جائے گا تاکہ بچے کا حق بالکل ختم نہ ہو جائے۔

اس سے ثابت ہوا بچوں کی پرورش کا حق ماں کے لیے ہے اور وہ اس وقت تک اسے اپنے پاس رکھے گی جب تک کہ بچے کو کھانے، پینے اور رفع حاجت کے لیے ماں کی ضرورت پڑے اور اس کی مدت لڑکے کے لیے سات (7) برس اور لڑکی کے لیے نو برس (9) ہے یا حیض آنے تک۔ اگر خدانخواستہ ماں مرتد ہوجائے یا بدکردار ہو، جس سے بچہ کی حفاظت ممکن نہ رہے تو اس صورت میں والدہ کا حقِ پرورش باطل ہوجاتا ہے۔

بچوں کی پرورش کا خرچ یعنی کفالت باپ کے ذمہ ہے۔ باپ کی وفات کی صورت میں اگر بچوں کا مال موجود ہے تو اس میں سے خرچ کیا جائے گا اور اگر مال موجود نہیں یعنی باپ نے وراثت میں کچھ نہیں چھوڑا تو ذمہ داری ماں پر ہوگی۔ قاعدہ یہ ہے کہ جس کے ذمہ نفقہ ہے اس کے ذمہ پرورش کا خرچ بھی ہے اور لڑکے کے لیے سات سال اور لڑکی کے لیے بلوغت تک خرچ دیا جائے گا۔

صورتِ مسئلہ میں سائل کے جن بیٹوں کی عمر سات (7) اور اور بیٹیوں کی عمر نو سال (9) سے زائد ہے ان کی حضانت کا حق والد کو بھی حاصل ہے، بہتر ہے سائل اور اس کی اہلیہ بچوں کی رضامندی سے ان کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ اگر والدہ بچوں کو اپنے ساتھ رکھنے پر ہی بضد ہے اور بچوں کے والد سے ملاقات بھی نہیں کروانا چاہتی تو اس کا یہ رویہ شرعاً درست نہیں ہے، والد اپنے اس حق کے لیے قانونی چارہ جوئی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ جو بچہ جس فریق کے پاس ہو، وہ دوسرے فریق کو اس بچے سے ملاقات کے حق سے محروم نہیں کرسکتا۔ بہتر یہی ہے کہ فریقین باہمی رضامندی سے بچوں کی پسند کے مطابق معاملہ طے کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Print Date : 24 April, 2024 01:13:50 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/6116/