Fatwa Online

شریعت کے سمعی دلائل کیا ہیں اور ان سے احکام کس طرح ثابت ہوتے ہیں؟

سوال نمبر:6114

نص مذہبی سے کیا مراد ہے؟ ادلہ سمعیہ کیا ہیں اور ان سے احکام کیسے ثابت ہوتے ہیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد افتخار حسین

  • مقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 03 دسمبر 2022ء

موضوع:فقہ اور اصول فقہ

جواب:

لفظ یا کلام کو جس معنی و مراد کو بیان کرنے کے لیے لایا جائے وہ لفظ یا کلام اُس معنی کے لیے نص کہلاتا ہے- عموماً دلائل سمعیہ قرآن، حدیث اور اجماع کے متن (یا متون) کو نص کہتے ہیں، اور اس کی جمع نصوص ہے۔ ایسی نص جو اپنے معنیٰ و مراد کے لیے بالکل واضح ہو اور اُس کا مفہوم سمجھنے کیلئے کسی تشریح یا تاویل کی ضرورت نہ ہو، اس نص کو قطعی الدلالۃ کہتے ہیں، اور ایسی نص جو اجمالی (aggregate) ہو اور یہ اجمال وضاحت، تشریح یا تاویل چاہتا ہے، اسے ظنی الدلالۃ کہتے ہیں۔ چنانچہ درجہ کے لحاظ سے دلائلِ سمعیہ کی چار قسمیں ہیں:

  • (1) قطعی الثبوت، قطعی الدلالة:

ایسی نص جو ثبوت (نقل) کے لحاظ سے بھی قطعی (یقینی طور پر ثابت) ہو، اور دلالت (Indication) کے لحاظ سے بھی قطعی (یقینی) ہو، قطعی الثبوت و قطعی الدلالة کہلاتی ہے۔ جیسے قرآنِ مجید کی تمام آیات اور آحادیثِ متواترہ (وہ احادیث جن کے روایت کرنے والے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک سے لے کر آج تک ہر زمانہ میں مختلف طبقات اور مختلف شہروں میں کثرت سے رہے ہوں کہ ان سب کا جھوٹی بات پر متفق ہونا محال ہو) قطعی الثبوت ہیں، ان میں وہ آیات و اخبار جن کی دلالت (Indication) اپنے مدلول (meaning) یعنی ایسا ظاہری معنیٰ کہ جو گہرائی میں جائے بغیر ابتداً بلاغور و تفکر سمجھ آئے، پر واضح ہو، اور ان سے کسی دوسرے معنیٰ کا احتمال و امکان اور الجھن نہ ہو۔

اس درجہ کے ثبوت اور دلالت والی نص سے جس کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو اُس کی فرضیت ثابت ہوتی ہے اور جس کام کے کرنے سے منع کیا گیا ہو اُس کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ اس فرضیت و حرمت کا منکر کافر ہوجاتا ہے۔

  • (2) قطعی الثبوت، ظنی الدلالة:

ایسی نص جو ’’ثبوت‘‘ کے لحاظ سے تو قطعی یعنی یقینی ہو لیکن ’’دلالت‘‘ کے لحاظ سے وہ ظنی یعنی غیریقینی و احتمالی ہو، قطعی الثبوت و ظنی الدلالۃ کہلاتی ہے۔ جیسے قرآنِ مجید کی تمام آیات اور احادیثِ متواترہ قطعی الثبوت ہیں، مگر ان میں سے بعض آیات و احادیث میں متعدد معانی کا احتمال ہوتا ہے، اور کسی معنیٰ کو ثابت کرنے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔

ايسی نصوص سے ثابت ہونے والے احکام میں کبھی وجوب اور کبھی سنّت (یعنی جس پر آپ ﷺ نے عادت و ہمیشگی اختیار فرمائی ہو اور اس کا بلاعذر چھوڑنا باعث گناہ ہے) کا حکم لگتا ہے، اسی طرح کسی بات کی نہی یعنی ممانعت میں کراہتِ تحریمی (حرام کے قریب مکروہ و ناجائز ہونا اور اس کا مرتکب کا مستحقِ عتاب ہونا) ثابت ہوتی ہے۔

  • (3) ظنی الثبوت، قطعی الدلالة:

ایسی نص جو ثبوت کے لحاظ سے ظنی یعنی غیریقینی ہو لیکن دلالت کے لحاظ سے قطعی ہو، ظنی الثبوت و قطعی الدلالۃ کہلاتی ہے۔ جیسے وہ اخبارِ احاد (ایسی احادیث جن کے نقل کرنے والے قرونِ ثلاثہ یعنی: دورِ صحابہؓ، دورِ تابعینؒ اور دورِ تبع تابعینؒ میں اتنے نہ رہے ہوں کہ ان کی روایت درجۂ تواتر یا درجۂ شہرت تک پہنچ سکے)، جن کی دلالت اپنے مدلول پر قطعی اور واضح ہو۔

اس درجہ کے ثبوت اور دلیل سے بھی احکام میں کبھی وجوب اور کبھی سنّت کا حکم لگتا ہے، اسی طرح کسی بات کی ممانعت میں کراہتِ تحریمی ثابت ہوتی ہے۔

  • (4) ظنی الثبوت، ظنی الدلالة:

ایسی نص جو ثبوت کے لحاظ سے بھی ظنی ہو اور اس کی دلالت غیریقینی ہو۔ جیسے وہ اخبارِ احاد جو متعدد معانی کا احتمال رکھتی ہیں۔

اس درجہ کے ثبوت اور دلیل سے کسی کرنے کے کام میں مستحب (یعنی وہ کام کے کرنے پر ثواب کی امید ہو اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہ ہو) ثابت ہوتا ہے، اور ممانعت میں کراہتِ تنزیہی (یعنی جو حلال کے قریب ہو، اور کرنے والا مستحقِ عتاب و عذاب نہ ہو، البتہ چھوڑنے پر ثواب ملے گا) ثابت ہوتی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Print Date : 21 November, 2024 05:31:12 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/6114/