جواب:
جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے کے بارے میں فقہاء کرام کی مختلف آراء ہیں۔ بعض نے مطلق کافر قرار دیا ہے جبکہ بعض نماز چھوڑنے والے کو کافر نہیں سمجھتے ان کے ہاں صرف نماز کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ جنہوں نے تارک صلاۃ کو کافر قرار دیا ہے ذیل میں پہلے ان کے دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔ وہ اپنے دلائل میں بیان کرتے ہیں کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَo
’’اسی کی طرف رجوع و اِنابت کا حال رکھو اور اس کا تقوٰی اختیار کرو اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤ۔‘‘
الروم، 30: 31
اس آیت سے وہ دلیل پکڑتے ہیں کہ تقویٰ اختیار کرنا اور نماز قائم کرنا رجوع الی اللہ ہے جبکہ ان اعمال کو چھوڑنا مشرکوں میں سے ہو جانا ہے، اس لیے وہ تارک نماز کو کافر قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ احادیث مبارکہ بھی دلالت کرتی ہیں جن سے نماز چھوڑنے والے کا کفر ثابت ہوتا ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ.
’’بے شک آدمی اور کفر اور شرک میں نماز نہ پڑھنے کا فرق ہے۔‘‘
وہ اس روایت سے بھی دلیل پکڑتے ہیں کہ نماز پڑھنا ہی کفر وشرک اور ایمان کے درمیان فرق ہے۔ حضرت بريده رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بَكِّرُوا بِالصَّلَاةِ فِي يَوْمِ الْغَيْمِ، فَإِنَّهُ مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ فَقَدْ كَفَرَ.
’’بادلوں والے دن نماز میں جلدی کیا کرو کیونکہ جس نے (جان بوجھ) کر نماز ترک کی اس نے (گویا) کفر کیا۔‘‘
امام ابن حبان رحمہ اللہ اس حدیث کو نقل کر کے اس پر تبصرہ فرماتے ہیں:
أَطْلَقَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْمَ الْكُفْرِ عَلَى تَارِكِ الصَّلَاةِ، إِذْ تَرْكُ الصَّلَاةِ أَوَّلُ بِدَايَةِ الْكُفْرِ، لِأَنَّ الْمَرْءَ إِذَا تَرَكَ الصَّلَاةَ وَاعْتَادَهُ ارْتَقَى مِنْهُ إِلَى تَرْكِ غَيْرِهَا مِنَ الْفَرَائِضِ، وَإِذَا اعْتَادَ تَرْكَ الْفَرَائِضِ أَدَّاهُ ذَلِكَ إِلَى الْجَحْدِ فَأَطْلَقَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْمَ النِّهَايَةِ الَّتِي هِيَ آخِرُ شُعَبِ الْكُفْرِ عَلَى الْبِدَايَةِ الَّتِي هِيَ أَوَّلُ شُعَبِهَا وَهِيَ تَرْكُ الصَّلَاةِ.
’’یہاں مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کو ترک کرنے والے پر کفر کا اطلاق کیا ہے کیونکہ نماز کو ترک کرنا کفر کے آغاز کا ابتدائی حصہ ہے کیونکہ جب کوئی شخص نماز کو ترک کرتا ہے اور اس کی عادت بنا لیتا ہے تو وہ دیگر فرائض کو ترک کرنے کے راستے پر چل پڑتا ہے اور جب وہ فرائض تک کرنے کی عادت بن لیتا ہے تو یہ چیز اسے انکار کی طرف لے جاتی ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اختتامی نام کو جو کفر کے شعبوں میں سے آخری حصہ ہے اسے ابتداء کے لیے استعمال کیا ہے جو اس کا پہلا شعبہ ہے اور وہ نماز کو ترک کرنا ہے۔‘‘
ابن حبان، الصحيح، 4: 323، الرقم: 1463، بيروت: مؤسسة الرسالة
انہی سے ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ الْعَهْدَ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ.
’’یقینا ہمارے اور ان (کفار) کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے، لہٰذا جس نے نماز کو ترک کیا (گویا) اس نے کفر کیا (عہد سے منہ موڑ لیا)۔‘‘
ابن حبان، الصحيح، 4: 305، الرقم: 1454
اس طرح قرآن وحدیث، آثار صحابہ اور اقوال اَئمہ کی روشنی میں تارکِ صلاۃ کو کافر قرار دیا جاتا ہے، اگر دیکھا جائے تو قصداً نماز چھوڑنے والے کے کفر کے قائلین کے دلائل کافی مضبوط ہیں لیکن اس کے باوجود ایک جماعت تارکِ نماز کے کفر کی قائل نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ جان بوجھ کر قصدا نماز کو چھوڑنا گناہ کبیرہ یعنی بڑا گناہ ہے اور گناہ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے، کافر نہیں ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کوتہدیداً یعنی دھمکی کے طور پر کافر فرمایا ہے، تاکہ وہ اس کے ترک کرنے سے بچ سکے۔ اور صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر نہیں ہوتا کہ وہ دائرہ اسلام سے نکل جائے، بلکہ اس گناہ کی وجہ سے فاسق ہوجاتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے جسم مبارک پر سفید کپڑا تھا اور آپ سو رہے تھے، پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الجَنَّةَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ» قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ» قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ» وَكَانَ أَبُو ذَرٍّ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا قَالَ: وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَرٍّ.
’’جس بندہ نے بھی کلمہ «لا إله إلا الله» ’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ کو مان لیا اور پھر اسی پر وہ مرا تو جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، میں نے پھر عرض کیا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ فرمایا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ میں نے (حیرت کی وجہ سے پھر) عرض کیا: چاہے اس نے زنا کیا ہو یا اس نے چوری کی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو۔ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ ابوذر رضی اللہ عنہ بعد میں جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ ابوذر کے لیے «وإن رغم أنف أبي ذر») ضرور بیان کرتے۔‘‘
البخاري، الصحيح، كتاب اللباس، باب الثياب البيض، 5: 2193، الرقم: 5489، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
یہ حدیث مبارکہ واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب مسلمان، اگر ایمان کی حالت میں اس دنیا سے چلا گیا ہے تو وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا، چاہے اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر ہی ہو۔ اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں علی بن سلطان المعروف ملاء علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فَفِيهِ بِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ عَاقِبَتَهُ دُخُولُ الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ لَهُ ذُنُوبٌ جَمَّةٌ، لَكِنَّ أَمْرَهُ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ بِقَدْرِ ذَنْبِهِ، ثُمَّ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ.
”اس حدیث میں اس بات کی خوشخبری ہے کہ مسلمان بالآخر انجام کار کے اعتبار سے جنت میں داخل ہوگا، چاہے اس پر گناہوں کے انبار ہی کیوں نہ ہوں لیکن اس کا معاملہ اللہ کے قبضے میں ہے، چاہے تو معاف فرما دیں اور جنت میں داخل فرما دیں اور چاہیں تو گناہوں کے بقدر سزا دیں اور پھر جنت میں داخل فرمائیں۔“
القاري، مرقاة المفاتيح، 1: 175، بيروت: دار الكتب العلمية
یہ بات واضح ہے کہ جنت میں کافر کو ہرگز داخل نہیں کیا جائےگا، لہٰذا معلوم ہوا کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب فاسق تو ہے، لیکن کافر نہیں ہے۔ اور جن احادیث میں یہ آیا ہے کہ ”بندہ اور کفر کے درمیان فرق صرف نماز چھوڑنا ہے۔“ اس کے محدثین نے کئی مطلب لکھے ہیں:
1. اس حدیث کا مطلب ہے کہ جو نماز چھوڑنے کو حلال سمجھے وہ کافر ہے، البتہ جو اس کو حلال نہ سمجھے، بلکہ اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے نماز کو ادا نہ کر سکے تو وہ اس حکم میں داخل نہ ہوگا، وہ فاسق ہے۔
2. اس حدیث کا مطلب ہے کہ نماز چھوڑنا کفر تک پہنچا دیتا ہے۔
3. اس حدیث کا مطلب ہے کہ نماز کے چھوڑنے والے کے بارے میں یہ خدشہ ہے کہ وہ کافر ہو کر مرے۔
4. نماز کا چھوڑنا کافرانہ عمل ہے ، اس کے چھوڑنے والے نے گویا کافروں والا کام کیا۔
اگر صحیح ابن حبان اور دیگر کتب میں نقل کی گئی احادیث اورآثار صحابہ کو تارکِ صلاۃ کے کفر پر محمول کیا جائے تو بغیر تجدید ایمان کے مرنے والے بے نمازی کے دفن اور اس کی میراث کے احکام کی وضاحت آنا بھی ضروری تھی جبکہ ایسا نہیں ہے اور نہ ہی آج تک مسلم معاشرے میں ایسے احکام لاگو نہیں کئے جاتے ہیں اور نہ ہی نماز چھوڑنے والے کے ایمان اور نکاح کی تجدید کا حکم ہے، لہٰذا نماز چھوڑنا اگرچہ سخت گناہ ہے لیکن اس سے آدمی کافر نہیں ہوتاہے۔
آپ نے پاکی ناپاکی کا جو عذر پیش کیا ہے اگر آپ کو ناپاکی کے تسلسل کا عارضہ لاحق ہے خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہے تو آپ ہر نماز کے لیے نیا وضو کر کے نماز ادا کیا کریں۔ اگر وضو ممکن نہیں ہے تو تیمم کر کے نماز ادا کر سکتے ہیں لیکن نماز کسی صورت معاف نہیں ہے، جیسا کہ سخت وعیدات آپ نے اوپر ملاحظہ کی ہیں، اس لیے کسی صورت بھی نماز سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں کیونکہ شیطان کا یہی مشن ہے کہ انسان کو اس طرح کے وساوس میں مبتلا کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے دور رکھا جائے۔ اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ نے شیطان کی بات ماننی ہے یا رحمٰن کی بات مان کر اپنی نجات کا سامان کرنا ہے؟ اگر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر عبادت کرو گے تو یہ سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔