جواب:
جن اسباب کی بنا پر کسی عورت سے نکاح کرنا ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتا ہے، ان میں سے ایک سبب حرمت مصاہرت یعنی ’سسرالی رشتہ‘ بھی ہے۔ حرمت مصاہرت کے بارے میں اَئمہ فقہ کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض فقہاء کرام صرف نکاح سے حرمت کے قائل ہیں اور کچھ نکاح اور زنا دونوں سے حرمت کے قائل ہیں جبکہ فقہاء احناف کے نزدیک حرمت مصاہرت زنا اور اس کے مقدمات یعنی شہوت سے چھونے اور بوسہ وغیرہ لینے سے بھی ثابت ہو جاتی ہے۔ جو فقہاء کرام زنا سے حرمت مصاہرت کے قائل ہیں انہوں نے اپنے موقف کی بنیاد نکاح کے لغوی معنی پر رکھی ہے۔ ان کے ہاں لغت میں نکاح کا اصلی معنی وطی یعنی ہمبستری کرنا ہے۔ اس موقف کے قائل فقہاء کرام درج ذیل ارشادِ باری تعالیٰ بطورِ دلیل پیش کرتے ہے:
وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًاo
’’اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہوں مگر جو (اس حکم سے پہلے) گزر چکا (وہ معاف ہے)، بے شک یہ بڑی بے حیائی اور غضب (کا باعث) ہے اور بہت بری روِش ہے۔‘‘
النساء، 4: 22
مذکورہ بالا آیت مبارکہ کی تفسیر میں ابو بكر محمد بن عبد الله ابن عربی رحمہ اللہ ایک طویل بحث کے بعد لکھتے ہیں:
فَثَبَتَ بِذَلِكَ أَنَّ اسْمَ النِّكَاحِ حَقِيقَةٌ لِلْوَطْءِ، مَجَازٌ فِي الْعَقْدِ فَوَجَبَ إذَا كَانَ هَذَا عَلَى مَا وَصَفْنَا أَنْ يُحْمَلَ قَوْله تَعَالَى: {وَلا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ} عَلَى الْوَطْءِ، فَاقْتَضَى ذَلِكَ تَحْرِيمَ مَنْ وَطِئَهَا أَبُوهُ مِنْ النِّسَاءِ عَلَيْهِ; لِأَنَّهُ لَمَّا ثَبَتَ أَنَّ النِّكَاحَ اسْمٌ لِلْوَطْءِ لَمْ يَخْتَصَّ ذَلِكَ بِالْمُبَاحِ مِنْهُ دُونَ الْمَحْظُورِ، كَالضَّرْبِ وَالْقَتْلِ وَالْوَطْءُ نَفْسُهُ لَا يَخْتَصُّ عِنْدَ الْإِطْلَاقِ بِالْمُبَاحِ مِنْهُ دُونَ الْمَحْظُورِ بَلْ هُوَ عَلَى الْأَمْرَيْنِ.
’’اس سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ نکاح کا اسم وطی کے معنی کے لیے حقیقت اور عقد کے معنی کے لیے مجاز ہے ہماری اس وضاحت کے بموجب قولِ باری تعالیٰ {اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہوں} کو وطی پر محمول کرنا واجب ہے اس لیے اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ جن عورتوں سے ایک شخص کے باپ نے وطی کی ہو وہ عورتیں اس شخص پر حرام ہوں گی کیونکہ جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ لفظ نکاح وطی کا اسم ہے تو یہ صرف وطی کی مباح صورتوں کے ساتھ مخصوص نہیں رہا بلکہ ممنوع صورتوں کو بھی شامل ہو گیا جس طرح لفظ ضرب یا قتل یا وطی ہے کہ جب ان کا اطلاق ہوتا ہے تو اس صرف ان کی مباح صورتیں مراد نہیں ہوتیں بلکہ مباح اور ممنوع دونوں صورتوں پر انہیں محمول کیا جاتا ہے۔‘‘
ابن العربي، أحكام القرآن، 3: 51، بيروت: دار الكتب العلمية
اس لیے احناف کے ہاں نکاح کے لغوی معنی کی بنیاد پر عقدِ نکاح کے علاوہ زنا اور اس کے دواعی سے بھی حرمتِ مصاہرت ثابت ہوتی ہے۔ اور حرمتِ مصاہرت چار قسم کی عورتوں میں ثابت ہوتی ہے جیسا کہ فقہاء کرام فرماتے ہیں:
وَأَرَادَ بِحُرْمَةِ الْمُصَاهَرَةِ الْحُرُمَاتِ الْأَرْبَعَ: حُرْمَةَ الْمَرْأَةِ عَلَى أُصُولِ الزَّانِي وَفُرُوعِهِ نَسَبًا وَرَضَاعًا وَحُرْمَةَ أُصُولِهَا وَفُرُوعِهَا عَلَى الزَّانِي نَسَبًا وَرَضَاعًا كَمَا فِي الْوَطْءِ الْحَلَالِ.
’’حرمتِ مصاہرت سے مراد چار حرمتیں ہیں: عورت (مزنیہ) کا زانی کے نسبی ورضاعی اصول وفروع پر حرام ہونا اور عورت (مزنیہ) کے نسبی ورضاعی اصول وفروع کا زانی پر حرام ہونا جیسے حلال وطی (نکاح) سے (حرمت) ثابت ہوتی ہے۔‘‘
ان عورتوں کی تقسیم یوں کی جا سکتی ہے:
مذکورہ بالا چاروں اقسام کو جاننے کے بعد معلوم ہوا کہ باپ کی بیوی یعنی اپنی ماں بھی ان میں شامل ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص اپنی ماں سے ناجائز تعلقات قائم کرے تو وہ اس کے باپ پر حرام ہو جاتی ہے کیونکہ زانی، زانیہ کے اصول وفروع ایک دوسرے پر حرام ہو جاتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہوا ہے کہ سگے بیٹے نے اپنے باپ کی منکوحہ کے ساتھ قبیح حرکت کی ہے تو ایسی عورت کا اپنے شوہر سے نکاح ختم ہو گیا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔