Fatwa Online

گبھراہٹ یا بدہضمی کی صورت میں وضو ٹوٹنے کا وہم ہونے پر وضو کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:6052

بعض دفعہ پیٹ میں گبھراہٹ یا گیس محسوس ہوتی ہے اور اس سے وضو ٹوٹنے کا وہم ہوتا ہے۔ اس سے وضو ٹوٹے گا؟ مفتی صاحب سوال پوچھ لینا اگر ہو سکے۔ تو مہربانی ہوگی اللہ پاک سلامت رکھے۔

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد اویس

  • مقام: ضلع میانوالی پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 14 دسمبر 2022ء

موضوع:وضوء

جواب:

جس شخص کو ہوا خارج ہونے کا شک ہو، اس کا وضو قائم رہتا ہے جب تک کہ اسے ہوا خارج ہونے کا یقین نہ ہو جائے خاص طور پر دورانِ نماز ہوا خارج ہونے کی آواز سنے یا بو محسوس کئے بغیر یعنی جب تک کچھ خارج ہونے کا یقین نہ ہو جائے، اس وقت تک نماز نہ توڑے۔ نماز سے پہلے شک ہونے کی صورت میں وضو کر لیا جائے تو بہتر ہوتا ہے لیکن جس شخص کو شک یا وہم کی بیماری ہو اور اسے اکثر ہی وضو کے بعد ہوا خارج ہونے کا شک رہے تو ایسے شخص کو جب تک پختہ یقین نہ ہو جائے تب تک اس کا وضو قائم رہتا ہے مراد شک کی وجہ سے وضو زائل نہیں ہوتا، یہی حکم احادیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عباد بن تمیم رضی اللہ عنہ نے اپنے چچا جان (حضرت عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہے کہ:

أَنَّهُ شَكَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلُ الَّذِي يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَجِدُ الشَّيْءَ فِي الصَّلاَةِ، فَقَالَ: لاَ يَنْفَتِلْ أَوْ لاَ يَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا.

’’انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے شکایت کی کہ جس شخص کو نماز میں خیال گزرے کہ شاید کچھ ہو گیا ہے (یعنی وضو ٹوٹ گیا ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز نہ توڑے یا ختم نہ کرے یہاں تک کہ (ریح کی) آواز سنے یا بدبو محسوس ہو جائے۔‘‘

  1. البخاري، الصحيح، كتاب الوضوء، باب لا يتوضأ من الشك حتى يستيقن، 1: 64، الرقم: 137، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب الحيض، باب الدليل على أن من تيقن الطهارة ثم شك في الحدث فله أن يصلي بطهارته تلك، 1: 276، الرقم: 361، دار إحياء التراث العربي

فقہی قاعدہ بھی ہے کہ؛ الْيَقِيْنُ لَايَزُوْلُ بِالشَّكِ (یقین شک سے زائل نہیں ہوتا) یعنی جس کے بارے میں یقین ہو، شک پڑ جانے کی وجہ سے یقینی بات کو چھوڑ نہیں دیا جاتا، اس حوالے سے متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا، فَأَشْكَلَ عَلَيْهِ أَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ أَمْ لَا، فَلَا يَخْرُجَنَّ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا، أَوْ يَجِدَ رِيحًا.

’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنے پیٹ میں گڑبڑ محسوس کرے اور اسے شک ہو جائے کہ اس کے پیٹ سے کچھ نکلا ہے یا نہیں تو اس وقت تک مسجد سے باہر نہ نکلے جب تک کہ (ریح) کی آواز یا بو محسوس نہ ہو۔‘‘

مسلم، الصحيح، كتاب الحيض، باب الدليل على أن من تيقن الطهارة ثم شك في الحدث فله أن يصلي بطهارته تلك، 1: 276، الرقم: 362

علامہ علی بن سلطان محمد المعروف ملّا علی القاری مرقاۃ المفاتیح میں ’’حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا، أَوْ يَجِدَ رِيحًا‘‘ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ یہ بے وضو ہونے کے یقینی ہونے سے مجاز ہے اس لئے کہ ’حدث‘ کا علم ہونے کے یہ دونوں اسباب ہیں۔ بعض علماء نے ایسے ہی فرمایا ہے اور ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ اس کے نکلنے کو محسوس کرے اگرچہ اس کی بدبو نہ سونگھے۔ مزید لکھا ہے کہ شرح السنہ میں اس کا معنی یوں ہے:

حَتَّى يَتَيَقَّنَ الْحَدَثَ لَا أَنَّ سَمَاعَ الصَّوْتِ أَوْ وِجْدَانَ الرِّيحِ شَرْطٌ، إِذْ قَدْ يَكُونُ أَصَمَّ فَلَا يَسْمَعُ الصَّوْتَ، وَقَدْ يَكُونُ أَخْشَمَ فَلَا يَجِدُ الرِّيحَ وَيَنْتَقِضُ طُهْرُهُ إِذَا تَيَقَّنَ الْحَدَثَ.

’’یہاں تک کہ حدث کا اس کو یقین ہو جائے، یہ بات نہیں ہے کہ ریح کی آواز کا سننا یا ریح کا پانا، یہ شرط ہے، اس لئے کہ ممکن ہے کہ وہ آدمی بہرا ہو وہ آواز نہ سنے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اخشم ہو یعنی اس کو بو محسوس ہی نہ ہوتی ہو تو وہ ریح کو نہیں پائے گا۔ لہٰذا ان کی طہارت اس وقت تک ختم ہو گی جب ان کو حدث کا ہونا یقینی ہو جائے۔‘‘

القاري، مرقاة المفاتيح، 2: 30، بيروت: دار الكتب العلمية

تقریباً تھوڑی بہت لفظی تبدیلی کے ساتھ اس موضوع پر بہت سی روایات نقل کی گئی ہیں جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَوَجَدَ حَرَكَةً فِي دُبُرِهِ، أَحْدَثَ أَوْ لَمْ يُحْدِثْ، فَأَشْكَلَ عَلَيْهِ فَلَا يَنْصَرِفْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا، أَوْ يَجِدَ رِيحًا.

’’جب تم میں سے کوئی نماز کے اندر ہو اور وہ اپنی پیٹھ میں حرکت محسوس کرے اور شک میں مبتلا ہو جائے کہ وضو ٹوٹا یا نہیں ٹوٹا تو نماز نہ توڑے یہاں تک کہ آواز سنے یا بدبو محسوس کرے۔‘‘

أبو داود، السنن، كتاب الطهارة، باب إذا شك في الحدث، 1: 45، الرقم: 177، بيروت: دار الفكر

امام ترمذی رحمہ اللہ نے جو روایت نقل کی ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ریح خارج ہونے سے وضو لازم آتا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا وُضُوءَ إِلَّا مِنْ صَوْتٍ أَوْ رِيحٍ. وَ هٰذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

’’وضو صرف آواز اور ہوا سے ہے۔‘‘ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

الترمذي، السنن، كتاب الطهارة، باب ما جاء في الوضوء من الريح، 1: 109، الرقم: 74، بيروت: دار إحياء التراث العربي

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ جب تک ہوا خارج ہونے کا یقین نہ ہو جائے اس وقت تک وضو قائم رہتا ہے۔ محض شک کی بنیاد پر وضو لوٹا ضروری نہیں ہے۔ اس لیے پیٹ کے اندر گھبراہٹ یا گیس محسوس ہونے سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک کہ گیس خارج نہ ہو جائے۔ اگر یہ صورت نماز سے پہلے ہو تو ہوا خارج کر کے وضو تازہ کیا جائے تاکہ دورانِ نماز توجہ پیٹ کی گھبراہٹ کی طرف نہ ہو جائے کیونکہ نماز میں یکسوئی درکار ہوتی ہے۔ اگر دورانِ نماز صرف پیٹ میں گھبراہٹ یا گیس محسوس ہو مگر خارج کچھ نہ ہو تو نماز مکمل کرنا ضروری ہے۔ ایسی صورت میں نماز نہ توڑنے کا حکم ہے جیسا کہ مذکورہ احادیث مبارکہ میں ذکر ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 21 November, 2024 06:36:28 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/6052/