Fatwa Online

اگر ورثاء میں شوہر، تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں تو وراثت کی تقسیم کس طرح ہوگی؟

سوال نمبر:6045

السلام علیکم! وراثت کی تقسیم کس طرح کی جائے میری دادی کی ذاتی جائیداد ایک گھر اور تین دوکان پر مشتمل ہے جو دادی کی ذاتی ملکیت ہے میری دادی کا انتقال 2004 میں ہوا۔ اس وقت وارثوں میں ایک دادا تین بیٹے پانچ بیٹیاں تھیں۔ ایک بیٹی کا انتقال دادی کی زندگی میں ہوگیا تھا جن کی اب آٹھ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ 2004 میں دادی کے انتقال کے بعد وراثت کی تقسیم نہ ہو سکی کیوں کہ جائیداد میرے دادا اور چچا کے استعمال میں تھی۔ 2006 میں دادی کے ایک بیٹے (میرے والد) کا انتقال ہوگیا ہے جن کی ایک بیوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ 2016 میں میرے دادا کا بھی انتقال ہو گیا۔ آپ 2022 میں وراثت کی تقسیم کا مسئلہ ہے یہ تقسیم کس طرح کی جائے تمام وارث کہتے ہیں جو فوت ہوگیا اس کا حصہ موجود نہیں ہے۔ یہ جائیداد اس وقت بھی میری دادی کے نام پر ہے کیا اس میں میری والدہ اور میرے بہن بھائیوں کا حصہ ہے؟ رہنمائی فرمائیں آپ سے گزارش ہے اس پر تحریری فتویٰ دیں منجانب حمزہ ظفر رابطہ: 03002184462 پتہ: فلیٹ A-12 گلستان مصطفی فائر اسٹیشن کراچی

سوال پوچھنے والے کا نام: حمزہ ظفر خان

  • مقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 04 نومبر 2022ء

موضوع:تقسیمِ وراثت

جواب:

میت کی تجہیزوتکفین، قرض کی ادائیگی اور پھر وصیت اگر ہو تو ایک تہائی سے پوری کرنے کے بعد جو مال باقی بچ جائے اُسے ورثاء میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ آپ کے سوالنامہ کے مطابق تین میتیں ہیں جن کے ترکہ کی تقسیم کرنا مقصود ہے تاکہ مسئلہ حل ہو جائے۔ پہلی میت آپ کی دادی، دوسری میت دادی کا بیٹا یعنی آپ کے والد اور تیسری میت آپ کے دادا جان ہیں۔ ان میتوں کے ترکہ کی تقسیم بالترتیب درج ذیل ہیں:

(1) آپ کے بقول آپ کی دادی متوفیہ 2004 ء کے وقتِ وفات ورثاء میں شوہر، تین بیٹے اور چار بیٹیاں شامل تھے۔ مرحومہ کے ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ کل قابلِ تقسیم جائیداد سےمرحومہ کےشوہر کو چوتھا (1/4) حصہ دیا جائے گا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

’’اور تمہارے لیے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لیے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد۔‘‘

النساء، 4: 12

مرحومہ کے شوہر کو کل جائیداد سے چوتھائی حصہ دے کر باقی جائیداد کے برابر برابر دس (10) حصے بنا کر دو دو حصے ہر بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو دیں گے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ.

’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔‘‘

النساء، 4: 12

اس طرح آپ کی دادی کے ترکہ سے ان کے شوہر کو چوتھا حصہ دے کر باقی جائیداد اس کے تین بیٹے اور چار بیٹیوں میں مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق تقسیم کی جائے گی جبکہ آپ کی دادی کی اولاد میں سے اس کی زندگی میں فوت ہو جانے والی بیٹی وارث نہیں بنے گی اس لیے مرحومہ بیٹی کے بیٹے اور بیٹیوں کو نانی کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا۔

-(2) دوسری میت آپ کے والد متوفی 2006 ء ہیں کہ جن کے وقتِ وفات ورثاء میں والد، بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ مرحوم کے کل قابلِ تقسیم ترکہ سے والد کو چھٹا (1/6) حصہ دیا جائے گا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

’’اور مُورِث کے ماں باپ کے لیے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مُورِث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مُورِث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لیے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مُورِث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہو گی)۔‘‘

النساء، 4: 11

اور مرحوم کے کل قابلِ تقسیم ترکہ سے ہی بیوہ کو آٹھواں (1/8) حصہ دیا جائے گا، جیسا کہ حکم باری تعالیٰ ہے:

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

’’اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔‘‘

النساء، 4: 12

اس طرح مرحوم کے والد اور بیوہ کے مقررہ حصے ان کو دے کر باقی جائیداد کے برابر برابر چھ (6) حصے بنا کر دو دو حصے ہر بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو دیں گے، جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں اولاد کے بارے آیت مبارکہ نقل کی گئی ہے۔

(3) تیسری میت آپ کے دادا جان متوفی 2016 ء ہیں کہ جن کے وقتِ وفات ورثاء میں دو بیٹے، چار بیٹیاں اور مرحوم بیٹے کی اولاد (دو بیٹے اور دو بیٹیاں) شامل ہیں۔ اس صورت میں مرحوم کی جائیداد کے برابر برابر دس (10) حصے بنا کر دو دو حصے دونوں بیٹوں کو دیں گے، چاروں بیٹیوں ایک ایک حصہ دیں گے اور دو حصے مرحوم بیٹے کی اولاد میں اس طرح تقسیم کریں گے کہ ہر بیٹے کو بیٹی سے دوگنا ملے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ.

’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔‘‘

النساء، 4: 12

خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ کی دادی جان کی جائیداد کو مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق تینوں میتوں کی وفات کی ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے تین مراحل میں ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ یعنی ہر میت کے وقتِ وفات موجود ورثاء کے حصے نکال کر اس کے موجودہ ورثاء کو دیئے جائیں گے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 21 November, 2024 06:11:15 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/6045/