Fatwa Online

اسلام نے جوانی کی عمر کس عرصہ حیات کو قرار دیا ہے؟

سوال نمبر:6034

السلام علیکم! جوانی کی عمر کس کو کہا گیا ہے؟ کیا 40 سال کی عمرکوجوانی کی عمر کہا گیا ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: سیف الرحمان

  • مقام: دوحہ
  • تاریخ اشاعت: 26 نومبر 2022ء

موضوع:معاشرت

جواب:

قرآنِ مجید نے 40 سال کی عمر کو پختگی کی عمر قرار دیا ہے۔ عام فہم بات ہے کہ انسان کی بلوغت کے بعد اس کے شباب کا آغاز ہو جاتا ہے، 40 سال کی عمر شباب یعنی جوانی کا اختتام ہوتا ہے۔ یعنی بلوغت سے لیکر 40 سال تک کی عمر جوانی کی عمر ہی کہلاتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً.

’’اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانۂ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور (پھر) چالیس سال (کی پختہ عمر) کو پہنچتا ہے۔‘‘

الأحقاف، 46: 15

امام فخرالدین رازی نے مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے:

اخْتَلَفَ الْمُفَسِّرُونَ فِي تَفْسِيرِ الْأَشُدِّ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِي رِوَايَةِ عَطَاءٍ يُرِيدُ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ سَنَةً وَالْأَكْثَرُونَ مِنَ الْمُفَسِّرِينَ عَلَى أَنَّهُ ثَلَاثَةٌ وَثَلَاثُونَ سَنَةً، وَاحْتَجَّ الْفَرَّاءُ عَلَيْهِ بِأَنْ قَالَ إِنَّ الْأَرْبَعِينَ أَقْرَبُ فِي النَّسَقِ إِلَى ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ مِنْهَا إِلَى ثَمَانِيَةَ عَشَرَ. وَقَالَ الزَّجَّاجُ الْأَوْلَى حَمْلُهُ عَلَى ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ سَنَةً لِأَنَّ هَذَا الْوَقْتَ الَّذِي يَكْمُلُ فِيهِ بَدَنُ الْإِنْسَانِ.

’’اس آیت میں اشد (پوری قوت کو پہنچا) کی تفسیر میں اختلاف ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اس سے مراد اٹھارہ سال اور اکثر مفسرین نے کہا کہ اس سے مراد تینتیس(33) سال ہے۔ فراء نے اس پر یہ دلیل قائم کی ہے اٹھارہ کی بہ نسبت تینتیس (33) سال، چالیس سال سے زیادہ قریب ہے۔ اور زجاج نے کہا کہ تینتیس (33) سال، اس لیے راجح ہیں کہ اس عمر میں انسان کے بدن کی قوت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔‘‘

الرازي، التفسير الكبير، 28: 15، بيروت: دار الكتب العلمية

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ اٹھارہ سال سے چالیس سال تک کی عمر کو جوانی کی عمر کہا جاسکتا ہے۔

انسان کی عمر مختلف مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔ پیدائش سے بلوغت تک کا عرصہ بچپن کہلاتا ہے، پھر بلوغت سے اٹھارہ سال کی عمر کو نوجوانی اور اٹھارہ سال سے چالیس سال تک کی عمر کو جوانی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد بڑھاپا شروع ہو جاتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 21 November, 2024 09:58:51 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/6034/