Fatwa Online

کیا دوزخ کبھی فنا ہوگی اور دوزخیوں کی سزا کبھی ختم ہوگی؟

سوال نمبر:6009

محترم جناب السلام علیکم! پچھلے کچھ دنوں سے ایک الجھن میں مبتلا ہوں۔ براۓ مہربانی مفصل جواب بمعہ حوالہ جات ارسال کریں۔ میرا سوال یہ ہے کہ: کیا یہ تصور درست ہے کہ قیامت کے دن کے بعد کافی طویل عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت اُسکے غضب پر غالب آ جائے گی اور اہل دوزخ اپنی سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد بالآخر دوزخ سے نکال لیے جائیں گے اور دوزخ بجھا دی جائے گی؟ درج بالا تناظر میں "خالدین فیہا ابدا" والی آیات میں اہل دوزخ کے لئے "ابدا" کی بھی کوئی حدود ہیں؟ اگر دوزخ مستقل ٹھکانہ ہے تو اہل دوزخ بھی تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ کیا ان کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا یا بند ہی رہے گا؟ براۓ مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں مفصل جواب دیں۔ شکریہ

سوال پوچھنے والے کا نام: منظور احمد

  • مقام: اوچ شریف، بہاولپور
  • تاریخ اشاعت: 17 اگست 2022ء

موضوع:دوزخ  |  ایمان بالآخرۃ

جواب:

عقیدہ اہل سنت کے مطابق جہنم کبھی فنا نہیں ہو گی، صرف توحید پرست گناہگار لوگ اپنی سزا پوری ہونے کے بعد حکم الہٰی سے جنت میں داخل ہوں گے جبکہ کفار ومشرکین اور ملحدین ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے وہ کبھی بھی اس سے نکل نہیں پائیں گے۔ اس حوالے سے بہت سی آیات ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہی ہو گا لیکن اختصار کی خاطر ذیل میں صرف چند آیات نقل کی جا رہی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَظَلَمُوا لَمْ يَكُنِ اللهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ طَرِيقًاo إِلَّا طَرِيقَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًاo

’’بے شک جنہوں نے (اللہ کی گواہی کو نہ مان کر) کفر کیا اور (رسول کی شان کو نہ مان کر) ظلم کیا، اللہ ہرگز (ایسا) نہیں کہ انہیں بخش دے اور نہ (ایسا ہے کہ آخرت میں) انہیں کوئی راستہ دکھائے۔ سوائے جہنم کے راستے کے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اور یہ کام اللہ پر آسان ہے۔‘‘

النساء، 4: 168، 169

اس آیت مبارکہ میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ کفار کی بخشش نہیں ہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ دوسرے مقام پر فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لِيَفْتَدُوا بِهِ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌo يُرِيدُونَ أَنْ يَخْرُجُوا مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنْهَا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌo

’’بے شک جو لوگ کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں اگر ان کے پاس وہ سب کچھ (مال و متاع اور خزانہ موجود) ہو جو روئے زمین میں ہے بلکہ اس کے ساتھ اتنا اور (بھی) تاکہ وہ روزِ قیامت کے عذاب سے (نجات کے لیے) اسے فدیہ (یعنی اپنی جان کے بدلہ) میں دے دیں تو (وہ سب کچھ بھی) ان سے قبول نہیں کیا جائے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ وہ چاہیں گے کہ (کسی طرح) دوزخ سے نکل جائیں جب کہ وہ اس سے نہیں نکل سکیں گے اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔‘‘

المائدة، 5: 36، 37

مذکورہ آیت مبارکہ میں بھی یہی بیان ہے کہ کفار جہنم سے نکل نہیں پائیں گے اور وہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ اگلی آیت مبارکہ بھی کفار کے ابدی طور پر جہنم میں رہنے پر دلالت ہے:

إِنَّ اللهَ لَعَنَ الْكَافِرِينَ وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِيرًاo خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًاo

’’بے شک اللہ نے کافروں پر لعنت فرمائی ہے اور اُن کے لیے (دوزخ کی) بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ جِس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ نہ وہ کوئی حمایتی پائیں گے اور نہ مددگار۔‘‘

الأحزاب، 33: 64، 65

ایک اور مقام پر پھر یہی مضمون ہے کہ کفار ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ إِنِّي لَنْ يُجِيرَنِي مِنَ اللهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدًاo إِلَّا بَلَاغًا مِنَ اللَّهِ وَرِسَالَاتِهِ وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًاo

’’آپ فرما دیں کہ نہ مجھے ہرگز کوئی اللہ کے (اَمر کے خلاف) عذاب سے پناہ دے سکتا ہے اور نہ ہی میں قطعاً اُس کے سوا کوئی جائے پناہ پاتا ہوں۔ مگر اللہ کی جانب سے اَحکامات اور اُس کے پیغامات کا پہنچانا (میری ذِمّہ داری ہے)، اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول (a) کی نافرمانی کرے تو بے شک اُس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

الجن، 72: 22، 23

ان آیات مبارکہ سے یہی ثابت ہے کہ کفار کے لیے کسی صورت بھی چھوٹ نہیں ہے بلکہ ان کے لیے ابدی ٹھکانہ جہنم ہی ہے کیونکہ بعد از قیامت موت کو ذبح کر دیا جائے گا، اس لیے جنت وجہنم میں حیات، حیاتِ ابدی ہو گی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن موت کو سرمئی مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا، (ابو کریب نے اضافہ کیا) اس کو جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کیا جائے گا، (اس کے بعد راویوں کا اتفاق ہے) پھر کہا جائے گا:

يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ وَيَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا الْمَوْتُ، قَالَ: وَيُقَالُ: يَا أَهْلَ النَّارِ هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قَالَ فَيَشْرَئِبُّونَ وَيَنْظُرُونَ وَيَقُولُونَ: نَعَمْ، هَذَا الْمَوْتُ، قَالَ فَيُؤْمَرُ بِهِ فَيُذْبَحُ، قَالَ: ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ، وَيَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: {وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ} [مريم: 39] وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى.

’’اے اہل جنت کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ گردن اٹھا کر اسے دیکھیں گے اور کہیں گے: ہاں یہ موت ہے! اور کہا جائے گا اے اہل دوزخ! کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ گردن اٹھا کر اسے دیکھیں گے اور کہیں گے: ہاں یہ موت ہے! پھر اس کو ذبح کرنے کا حکم ہو گا اور اس کو ذبح کر دیا جائے گا، پھر کہا جائے گا اے اہل جنت! اب دوام ہے اور موت نہیں ہے اور اے اہل دوزخ! اب ہمیشگی ہے اور موت نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی (ترجمہ:) ’اور آپ انہیں حسرت (و ندامت) کے دن سے ڈرائیے جب (ہر) بات کا فیصلہ کردیا جائے گا، مگر وہ غفلت (کی حالت) میں پڑے ہیں اور ایمان لاتے ہی نہیں۔‘ اور آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے دنیا کی طرف اشارہ کیا۔‘‘

  1. البخاري، الصحيح، كتاب التفسير، باب (وأنذرهم يوم الحسرة)، 4: 1760، الرقم: 4453، بروت: دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب النار يدخلها الجبارون والجنة يدخلها الضعفاء، 4: 2188، الرقم: 2849، بيروت: دار إحياء التراث العربي

اس حدیث مبارکہ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ جنت ودوزخ کو فنا نہیں ہے، یہ رہیں گی، اس کا مطلب ہے کہ جب یہ دونوں دائمی ہیں تو ان میں رہنے والے بھی دائمی طور پر ان میں رہیں گے، لہٰذا دوزخ کا فنا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی موجود بھی رہے گا یعنی کفار ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ یہی عقیدہ اہل سنت ہے جیسا کہ اہل السنہ کی کتب میں لکھا ہے:

وَالْجَنَّةُ وَالنَّارُ خُلِقَتَا لِلْبَقَاءِ لَا لِلْفَنَاءِ.

’’جنت اور دوزخ کی تخلیق باقی رہنے کے لیے کی گئی ہے، ان کے لیے فنا نہیں ہے۔‘‘

طحاوي، شرح العقيدة الطحاوية، 480:1، بيروت: المكتب الإسلامي

ابو قاسم ہبۃ اللہ بن حسن بن منصور طبری فرماتے ہیں:

وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَهُمَا مَخْلُوقَتَانِ مَوْجُوْدَتَانِ بَاقِيَّتَانِ لَايَفْنَيَانِ أَبَدًا.

’’اور جنت حق ہے اور دوخ حق ہے اور وہ دونوں پیدا کی ہوئی ہیں وہ دونوں موجود ہیں۔ (جنت اور دوخ) دونوں باقی ہیں۔ دونوں کبھی فنا نہیں ہوں گی۔‘‘

ابن منصور، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة، 1: 197، السعودية: دار طيبة

ان عبارات کے مطابق دوزخ بھی ابدی ہے اور اس کے فنا ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اس کے غضب پر غالب آنے کا جو تصور آپ نے سوالنامہ میں بیان کیا اس حوالے سے احادیث مبارکہ ہیں لیکن ان میں کفار کو جہنم سے نکالنے کا کوئی جواز نہیں ملتا ویسے بھی آیاتِ مقدسہ میں بڑی صراحت کے ساتھ حکم الہٰی موجود ہے کہ کفار کا دائمی ٹھکانا جہنم ہی ہے اور ان کے لیے چھٹکارے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ جب انہوں نے اللہ کے احکام کو ٹھکرا دیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے بھی آخرت میں اپنی رحمت کے دروازے ان پر بند کر دئیے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے غضب پر اس کی رحمت غالب ہے، اسی لیے تو وہ اپنے انکار کے باوجود بھی انسان کو زندگی کی ہر سہولت مہیا کرتا ہے ورنہ بڑے بڑے جرائم پیشہ اسی وقت اللہ کی پکڑ میں آجائیں اور انہیں مزید مہلت ہی نہ ملے۔اور یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت کے غلبہ کا ہی نتیجہ ہے کہ منکر الٰہی بھی اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے غلبہ والی حدیث مبارکہ درج ذیل ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اﷲُ الْخَلْقَ کَتَبَ فِي کِتَابِهِ وَهُوَ يَکْتُبُ عَلَی نَفْسِهِ وَهُوَ وَضْعٌ عِنْدَهُ عَلَی الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھا اور وہ اپنی ذات کے متعلق لکھتا ہے جو اُس کے پاس عرش پر رکھی ہوئی ہے کہ میرے غضب پر میری رحمت غالب ہے۔‘‘

  1. البخاري، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اﷲ تعالی ويحذّرکم اﷲ نفسه، 6: 2694، الرقم: 6969
  2. مسلم، الصحيح، کتاب التوبة، باب في سعة رحمة اﷲ تعالی وأنّها سبقت غضبه، 4: 2107، الرقم: 2751

ایک اور روایت میں یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اﷲَ لَمَّا قَضَی الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَهُ فَوْقَ عَرْشِهِ إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو عرش کے اوپر اپنے پاس لکھ کر رکھ لیا: بے شک میری رحمت میرے غضب سے بڑھ گئی ہے۔‘‘

  1. البخاري، الصحيح، کتاب التوحيد، باب وکان عرشه علی الماء وهو رب العرش العظيم، 6: 2700، الرقم: 6986
  2. النسائي، السنن الکبری، 4: 418، الرقم: 7757، بيروت: دار الكتب العلمية

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ کفار کے لیے جہنم میں ہمیشگی ہو گی، ان کے لیے کسی صورت بھی جہنم سے چھٹکارہ نہیں ہو گا، وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے، ان کے لیے جہنم سے نکل کر جنت میں جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ صرف اہل ایمان گناہگاروں ہی اپنی سزا پوری ہونے کے بعد جہنم سے جنت میں جائیں گے جبکہ کفار کا پکا ٹھکانہ جہنم ہی ہوگا، وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کیونکہ آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالی نے عذاب دینے کی کوئی قیدنہیں لگائی اور نہ ہی ’ابدًا‘ کی کوئی حد بیان کی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 19 April, 2024 06:34:25 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/6009/