Fatwa Online

کیا قبولِ اسلام کے لیے عمر کی حد مقرر ہے؟

سوال نمبر:6008

میرا سوال ہے کہ کیا ہر عمر کے افراد کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جا سکتی ہے؟ آپ سے یہ سوال پوچھنے کی وجہ ایک مجوزہ بل ہے جو کہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس موضوع پر تفصیلی رہنمائی فرمائیں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: عبداللہ

  • تاریخ اشاعت: 22 جنوری 2022ء

موضوع:اقلیتوں کے حقوق  |  ایمانیات

جواب:

خاتم النبيين سید المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جتنے انبیاء ورسل علیہم السلام اس دنیا میں تشریف لائے ان کی نبوت ورسالت علاقہ، قوم اور زمانے کے لحاظ سے محدود تھی۔ بنی اِسرائیل میں حضرت یعقوب علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تقریباً تین ہزار پیغمبر آئے، ان سب پیغمبروں کی نبوت بنی اسرائیل کے خاندان اور قوم کے لیے مخصوص تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام اور جن دیگر انبیاء کا ذکر آتا ہے یہ اپنے اپنے علاقے اور قوم کے لیے نبی ہوئے ہیں۔ مثلاً حضرت یونس علیہ السلام ایک شہر نینوا کے پیغمبر ہوئے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کرام علیہم السلام کی نبوتیں علاقے کے لحاظ سے بھی محدود تھیں، نسلی اعتبار سے بھی محدود تھیں اور وقت کے اعتبار سے بھی محدود تھیں۔مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت علاقے، نسل اور وقت کسی لحاظ سے بھی محدود نہیں ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت دنیا کے تمام علاقوں کے لیے ہے، تمام اقوام کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ اس بات کی تصدیق خود باری تعالیٰ نے کئی مقامات پر فرمائی ہے:

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا.

’’آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں۔‘‘

الأعراف، 7: 158

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واضح فرما دیا کہ اب میں نے جس رہبر اعظم کو تمہاری طرف مبعوث کیا ہے، اس کی شانِ رہبری کسی قوم سے مخصوص ہے اور نہ کسی زمانہ سے محدود ہے۔ جس طرح میری حکومت وسروری عالمگیر ہے اسی طرح میرے محبوب کی رسالت بھی جہاں گیر ہے۔ لہٰذا اب ہر خاص وعام، ہر امیر وغریب، ہر عربی وعجمی اور ہر رومی وحبشی نبئ آخر زماں کا امتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باری تعالیٰ نے زبان برحق سے اعلان کروایا کہ اے اولادِ آدم! اب میں زمین وآسمان کے مالک وخالق کی طرف سے تم سب کے لیے پیغامِ حق لے کر آیا ہوں۔ اب تمہارے لیے رشدوہدایت اور فلاح کی راہ یہی ہے کہ تم سب میری پیروی کرو اور میرے نقوشِ پا کو اپنے لیے راہِ نجات بناؤ۔ اگر تم میری سنّت سے منحرف ہوئے تو راہِ حق سے پھسل جاؤ گے اور ذلت تمہارا مقدر بن جائے گی۔ دوسرے مقام پر فرمایا:

تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًاo

’’(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرّب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈر سنانے والا ہو جائے‘‘

الفرقان، 25: 1

اس آیت مبارکہ میں باری تعالیٰ نے للعالمین کے لفظ سے واضح کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت اس قدر بے کنار و لامحدود ہے کہ زمان ومکان کی حدود سے آشنا نہیں ہے۔ لہٰذا سوائے ذاتِ باری تعالیٰ کے کائنات کی پستی وبلندی میں جو کچھ ہے ہر گوشہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی و رسول ہیں اور تاقیامت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت کا پرچم لہراتا رہے گا۔ سورہ سبا میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی شان بیان فرمائی ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَo

’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لیے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘

سبا، 34: 28

مذکورہ بالا آیت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پوری انسانیت کے لیے نبی ورسول ہونے کی دلیل ہے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام عالمین کے لیے رحمت ہیں اسی طرح تمام عالمین کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت ہے۔ لہٰذا کوئی بھی انسان آپ کے دائرہ دعوت سے باہر نہیں ہے۔ اس کی تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی فرما دی جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث مبارکہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ وجوہ پر دوسرے انبیاء کرام پر فضیلت دی گئی ہے ان میں سے دو وجوہ یہ ہیں:

وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً وَخُتِمَ بِىَ النَّبِيُّونَ.

’’مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبوت ختم کر دی گئی۔‘‘

مسلم، الصحیح، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب تحويل القبلة من القدس إلى الكعبة، 1: 371، الرقم: 523، بيروت: دار إحياء التراث العربي

معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت اور دعوتِ دین پوری نسلِ انسانی کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ چنانچہ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باقی فرائض امت کو منتقل ہوئے ہیں اسی طرح دعوت کا فریضہ بھی امت کو منتقل ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکار بحیثیت امت اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ قرآن کریم اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں اللہ تعالیٰ کا پیغام نسل انسانی تک پہنچائیں۔ اگر امت میں دعوت کا یہ عمل جاری رہے گا تو امت بری الذمہ ہوگی لیکن اگر کسی دور میں امت میں دعوت کا یہ عمل رک جائے گا یعنی نسل انسانی تک اسلام کا پیغام پہنچنے کا عمل معدوم ہو جائے گا تو نتیجے میں بحیثیت امت پوری امت مسلمہ گناہگار ٹھہرے گی۔ یہ دعوت اسلام کی اصولی حیثیت ہے۔ لہٰذا قیامت تک دعوت اسلام کا عمل جاری رکھنے کا حکم ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَo

’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔‘‘

آل عمران، 3: 104

مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہوا کہ دینِ اسلام قبول کرنے کی دعوت جمیع انسانیت کے لیے ہے اور اب یہ حکم تا قیامت باقی رہے گا۔ اس کے مخاطبین میں ہر عام وخاص، ہر پیر وجوان اور مرد وخواتین یعنی تمام ذی شعور جن وانس شامل ہیں۔ اور جو پہلے ایمان کی دولت پا چکے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ ان میں سے ایک جماعت دعوتِ دین کا فریضہ سر انجام دیتی رہے۔

دینِ اسلام کی دعوت دینا کیوں ضروری ہے؟

اسلام کی دعوت دینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ مخلوقِ خدا کی خیروفلاح اور رشدوہدایت کا سرچشمہ اب صرف اِسلام ہی ہے۔ فرمانِ رحمٰن کے مطابق دین اب صرف اسلام ہی ہے اور جو اس سے اختلاف کرتے ہیں اس کی وجہ صرف نا واقفیت وجہالت اور ان کا باہمی حسد وعناد ہے۔ جو باری تعالیٰ نے درج ذیل آیت مبارکہ میں بیان فرمایا ہے:

إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِo

’’بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے، اور اہلِ کتاب نے جو اپنے پاس علم آجانے کے بعد اختلاف کیا وہ صرف باہمی حسد و عناد کے باعث تھا، اور جو کوئی اللہ کی آیتوں کا انکار کرے تو بے شک اللہ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے۔‘‘

آل عمران، 3: 19

کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر اللہ کے ہاں دین صرف اسلام ہی ہے تو کیا باقی ادیان حق نہیں ہیں؟ اس کا جواب حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے دیا ہے۔ وہ تفسیر القرآن العظیم میں لکھتے ہیں:

وَهُوَ اتِّبَاعُ الرُّسُلِ فِيمَا بَعَثَهُمُ اللَّهُ بِهِ فِي كُلِّ حِينٍ، حَتَّى خُتِمُوا بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الَّذِي سَدَّ جَمِيعَ الطُّرُقِ إِلَيْهِ إِلَّا مِنْ جِهَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

’’ہر زمانہ کے نبی پر اللہ تعالیٰ نے جو نازل فرمایا اس کی اطاعت واتباع کو اِسلام کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے جب نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو اتباع محمّدی کا اسلام ہو گیا۔‘‘

ابن كثير، تفسير القرآن العظيم، 1: 355، بيروت: دار الفكر

یہی وجہ ہے کہ اب سابقہ شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں۔ اب صرف اور صرف شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی لازم ہے۔ لہٰذا انسانیت کی بہتری کے لیے دین اسلام کی دعوت دینا بے حد ضروری ہے کیونکہ اب دین اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اپنانے والا اللہ تعالیٰ کے ہاں فائدہ اٹھانے والا نہیں ہے بلکہ نقصان اٹھانے والا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَo

’’اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔‘‘

آل عمران، 3: 85

یعنی اب اسلام ہی ایک عالمگیر دعوتی مذہب ہے کیونکہ اسلام آسمانی مذاہب میں سے واحد مذہب ہے جس کی دعوت پوری نسل انسانی کے لیے، دنیا کے تمام علاقوں کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ اسی دعوت وارشاد کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اس امت کو امتِ خیر قرار دیا ہے، فرمانِ الہٰی ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَo

’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً ان کے لیے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔‘‘

آل عمران، 3: 110

جب خیر امت جیسے جلیل القدر لقب سے سرفراز ہونے کی وجہ ہی دعوتِ دینِ اسلام ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ دعوت وارشاد کا عمل چھوڑ کر امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی صورت بھی اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو سکتی، لہٰذا دینِ اسلام کی دعوت دینا ہمارا اہم فریضہ ہے۔

راہِ ہدایت کی طرف نہ بلانے کی سزا

جو لوگ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود واضح نشانیوں اور ہدایت کو لوگوں تک پہنچانے کی بجائے چھپاتے ہیں، انہیں باری تعالیٰ نے ملعون قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَo

’’بے شک جو لوگ ہماری نازل کردہ کھلی نشانیوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے (اپنی) کتاب میں واضح کردیا ہے تو انہی لوگوں پر اللہ لعنت بھیجتا ہے (یعنی انہیں اپنی رحمت سے دور کرتا ہے) اور لعنت بھیجنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔‘‘

البقرة، 2: 159

اس آیتِ مبارکہ میں بنی اسرائیل کے اُن علماء سوء کا ذکر ہے جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص وکمالات کو چھپاتے تھے یا پھر اپنی خواہشِ نفس کے مطابق تحریف کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن پر لعنت بھیجی ہے۔ اگر آج بھی کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات اور دینِ حق کی ترویج واشاعت کی بجائے رکاوٹ کا سبب بنے گا تو رحمتِ باری تعالیٰ سے محروم رہے گا۔

دعوتِ اسلام سے کون روکنا چاہتا ہے؟

کفار ہر گزنہیں چاہتے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے دین کی ترویج واشاعت کریں لیکن ان کی اس خواہش کو پورا کرنے کی بجائے ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے دین کی دعوت کا کام جاری رکھنا چاہیے کبھی بھی کفار کی چالوں میں نہیں آنا چاہیے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ آيَاتِ اللَّهِ بَعْدَ إِذْ أُنْزِلَتْ إِلَيْكَ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَo

’’اور وہ (کفار) تمہیں ہرگز اللہ کی آیتوں (کی تعمیل و تبلیغ) سے باز نہ رکھیں اس کے بعد کہ وہ تمہاری طرف اتاری جا چکی ہیں اور تم (لوگوں کو) اپنے رب کی طرف بلاتے رہو اور مشرکوں میں سے ہرگز نہ ہونا۔‘‘

القصص، 28: 87

قرآنِ مجید کے اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے کفار ومشرکین کی خواہش پر عمل کرنے سے منع فرمایا ہے تا کہ مسلمان دینِ اسلام کی دعوت کا سلسلہ منقطع نہ ہو نے دیں کیونکہ اسلام دشمن قوتیں ہمیشہ سے یہی چاہتی ہیں کہ دعوتِ دینِ اسلام کو کسی نہ کسی صورت روک دیا جائے۔ آج بھی کفار ومشرکین بہرصورت اسلام کی ترویج واشاعت کا سلسلہ روکنا چاہتے ہیں اور اسلام کو صرف مسجد کی چار دیواری تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔

دعوتِ اسلام ہر مسلمان پر بقدرِ استطاعت واجب ہے

لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا اور دین اسلام کی دعوت دینا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ ہے۔ اسی راہ پر ہمیں بھی چلنے کا حکم ہے اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَo

’’(اے حبیبِ مکرّم!) فرما دیجیے: یہی میری راہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی، اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘

یوسف، 12: 108

اللہ تعالیٰ کی واحدنیت کا پرچار کرنالازمی امر ہے، یہی حکم تمام انبیاء کرام اور رسل عظام کو تھا اور اب یہی حکم قیامت تک آنے والے تمام جن وانس کو ہے کہ توحید ورسالت کی تبلیغ کریں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِo

’’اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہم اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم میری (ہی) عبادت کیا کرو۔‘‘

الأنبياء، 21: 25

دوسرے مقام پر فرمایا:

شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُo

’’اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ مقرّر فرمایا جس کا حکم اُس نے نُوح ( علیہ السلام ) کو دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے آپ کی طرف بھیجی اور جس کا حکم ہم نے ابراھیم اور موسٰی و عیسٰی ( علیہم السلام ) کو دیا تھا (وہ یہی ہے) کہ تم (اِسی) دین پر قائم رہو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو، مشرکوں پر بہت ہی گراں ہے وہ (توحید کی بات) جس کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں۔ اللہ جسے (خود) چاہتا ہے اپنے حضور میں (قربِ خاص کے لیے) منتخب فرما لیتا ہے، اور اپنی طرف (آنے کی) راہ دکھا دیتا ہے (ہر) اس شخص کو جو (اللہ کی طرف) قلبی رجوع کرتا ہے۔‘‘

الشورى، 42: 13

مذکورہ بالا کثیر آیات مبارکہ سے یہ بات واضح ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کے ہاں سچا دین اور قابلِ عمل دین اسلام ہی ہے۔ اس کی ترویج واشاعت ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کو فروغ دینے کی کاوش کرے۔ جہاں علم کی ضرورت ہے وہاں علماء کرام اپنے علم کی روشنی پھیلائیں، جہاں مالی مدد کی ضرورت ہے وہاں مالدار اپنا مال خرچ کریں اور سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے احباب اپنی خدمات پیش کریں یعنی جو جس شعبہ میں بھی ہے وہ اپنی اہلیت واستعداد کے مطابق دین اسلام کے لیے جس نوعیت کی خدمات پیش کر سکتا ہے ضرور پیش کرے یہ ہر ایک کی استطاعت کے مطابق اس کا فریضہ ہے مقصد دعوت دین ہے تاکہ ہم احکام باری تعالیٰ پر عمل پیرا ہوتے رہیں۔

اسلام میں جبراً تبدیلی مذہب کا کوئی تصور نہیں

کسی کو جبراً اسلام میں داخل کرنا دینِ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے کیونکہ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسلام میں داخل کرنے کے لیے سختی سے پیش آنے کی اجازت طلب کی گئی تو اس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌo

’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لیے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘

البقرة، 2: 256

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ حضرت حصین انصاری رضی اللہ عنہ جو قبیلہ بنی سالم بن عوف سے تعلق رکھتے تھے جب اسلام لائے تو ان کے دو بیٹے نصرانی تھے شفقتِ پدری کے پیش نظر وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح ان کے بیٹے بھی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےخوشہ چین بن جائیں اور اسلام کی برکتوں سے مستفیض ہوں۔ اپنے طور کافی کوشش کے بعد ایک دن حضرت حصین انصاری رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگےکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت ہو تو میں اپنے بیٹوں کو کچھ ڈرا دھمکا کراسلام قبول کرنے پر مجبور کروں؟ کیونکہ مجھے ان کا نصرانی رہنا بہت شا ق گزرتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ دینِ اسلام میں کوئی زبر دستی نہیں کیونکہ اللہ نے ہدایت و ضلالت دونو ں کے راستے واضح کردیئے ہیں۔ دین کے بارے میں کسی کو زبر دستی مجبور نہ کیا جائے، اللہ نے کھلی ہدایت دینے کے بعد لوگوں کو اختیار دیدیا ہے۔ یہ روایت اکثر مفسرین نے نقل کی ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ} [البقرة: 256] قَالَ: نَزَلَتْ فِي رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ بَنِي سَالِمِ بْنِ عَوْفٍ يُقَالُ لَهُ الْحُصَيْنُ؛ كَانَ لَهُ ابْنَانِ نَصْرَانِيَّانِ، وَكَانَ هُوَ رَجُلًا مُسْلِمًا، فَقَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا أَسْتَكْرِهُهُمَا فَإِنَّهُمَا قَدْ أَبَيَا إِلَّا النَّصْرَانِيَّةَ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ ذَلِكَ.

  1. الطبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 4: 547، بيروت: دار الفكر
  2. القرطبي، الجامع لأحكام القرآن، 3: 279، القاهرة: دار الشعب
  3. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1: 311312، بيروت: دار الفکر

دینِ اسلام برحق ہے پھر بھی حق کے واضح ہونے کے بعد اسلام اِنسان کو اِختیار دیتا ہے کہ چاہے وہ مومن بن جائے، چاہے کفر اِختیار کرے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ.

’’اور فرما دیجیے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔‘‘

الكهف، 18: 29

اسلام ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے اپنے مذاہب کے عقائد کے مطابق عمل پیرا رہتے ہوئے جینے کا حق دیتا ہے۔ نہ کسی کے مذہب کو چھیڑنے کی تعلیم دیتا ہے اور نہ ہی اپنا مذہب چھوڑنے کی اجازت دیتا ہے۔ سورۃ الکافرون میں ایک مکالمہ بیان کر کے آخر پر ارشاد فرمایا:

لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِo

’’(سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے۔‘‘

الكافرون، 109: 6

لہٰذا دینِ اسلام میں جبراً مذہب تبدیل کروانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اگر کوئی غیر مذہب اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر بخوشی دین اسلام قبول کرنا چاہے تو اسے خوش آمدید کہتا ہے۔ اگر کوئی ریاست، گروہ یا فرد واحد مسلمانوں پر ظلم وستم بھی ڈھائے تو اسلامی تعلیمات کے مطابق اس کو امن کی دعوت دینا لازم ہے۔ بعض لوگ جہالت کی وجہ سے اور بعض اسلام دشمنی کے سبب اسلامی تعلیمات کو سیاق سباق سے ہٹا کر پیش کرتے ہیں اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کی خاطر زور زبردستی اور جبرواکراہ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں جبکہ ہرگز اسلامی تعلیمات میں جبرواکراہ نہیں ہے۔

کم سنی میں قبولِ اسلام اور خدمات پیش کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین

دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بہت سے صحابہ کرام کم عمری میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور بہت سے ایسے تھے جنہوں نے کم سنی میں اپنی خدمات دینِ اسلام کے لیے پیش کیں لیکن اختصار کی خاطر چند صحابہ کرام کا ذکر درج ذیل ہے:

سیدنا علی علیہ السلام

امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا علی علیہ السلام کی قبول اسلام کے وقت عمر آٹھ سال لکھی ہے۔ بعض روایات میں دس سال یا اس سے بھی کم عمر کا ذکر ہے۔ آپ علیہ السلام بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ جن کتب سے یہ موقف لیا گیا ہے ان کے حوالہ جات درج ذیل ہیں۔

  1. البخاري، التاريخ الكبير، 6: 259، بيروت: دار الفكر
  2. الحاكم، المستدرك على الصحيحين، كتاب معرفة الصحابة، 3: 120، الرقم: 4581، دارالكتب العلمية بيروت
  3. ابن أبي شيبة، المصنف، 7: 14، الرياض: مكتبة الرشد
  4. ابن إسحاق، السيرة النبوية، 2: 118، معهد الدراسات والابحاث للتعريب
  5. ابن سعد، الطبقات الكبرى، 3: 21، بيروت: دار صادر
  6. طبري، تاريخ الأمم ولملوك، 1: 539، بيروت: دارالكتب العلمية

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے والد سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے جبکہ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ بالغ نہیں تھے۔ یعنی آپ رضی اللہ عنہ نے بالغ ہونے سے پہلے اسلام قبول کیا۔

  1. ابن سعد، الطبقات الكبرى، 4: 142
  2. ابن عساكر، تاريخ مدينة دمشق، 31: 85، بيروت: دارالفكر

سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ

حضرت زيد بن ثابت رضی اللہ عنہ نے گیارہ سال کی عمر میں ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے۔

الحاكم، المستدرك على الصحيحين، كتاب معرفة الصحابة، 3: 476، الرقم: 5775

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو دس سال کی عمر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدمت کے لیے قبول فرمایا۔

العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 1: 126، بيروت: دار الجيل

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

انہوں نے تیرہ سال کی عمر میں اپنے آپ کو غزوہ احد میں شرکت کے لیے پیش کیا۔

الحاكم، المستدرك على الصحيحين، كتاب معرفة الصحابة، 3: 650، الرقم: 6389

سیدنا عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

آپ رضی اللہ عنہ سولہ سال کی عمر میں غزوہ بدر میں شہید ہوئے

ابن الأثير، أسد الغابة، 2: 376، بيروت: داراحياء التراث العربي

یہودی لڑکے کا قبولِ اسلام

ایک یہودی لڑکا مرض الموت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر اسلام لے آیا جبکہ اس کا یہودی باپ پاس موجود تھا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ أَسْلِمْ فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنْ النَّارِ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ بیمار ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے پاس بیٹھ کر اس سے فرمایا: اسلام قبول کر لے۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے پاس تھا اور اُس سے کہا: ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات مان لو۔ وہ مسلمان ہو گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لائے: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اسے جہنم سے بچا لیا۔‘‘

البخاري، الصحيح، كتاب الجنائز، باب إذا أسلم الصبي فمات هل يصلى عليه وهل يعرض على الصبي الإسلام، 1: 455، الرقم: 1290، بيروت: دار ابن كثير اليمامة

تبدیلی مذہب کے مجوزہ بل کا جائزہ

وفاقی وزارت انسانی حقوق کی طرف سے تبدیلی مذہب کے مجوزہ بل کے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق جہاں تک جبراً اسلام قبول کروانے کا تعلق ہے اس حوالے سے قرآن وحدیث میں بالکل واضح ہے کہ کسی صورت اس عمل کی اجازت نہیں ہے اس کو آئین وقانون کا حصہ بنانے کی کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن اس کی آڑ میں اپنی رضامندی سے اسلام قبول کرنے والے شخص کو ایڈیشنل سیشن جج صاحب سے درخواست کے چکروں میں ڈال کر قبولِ اسلام میں تاخیر کروانا اور اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو اسلام قبول کرنے کی اجازت نہ دینا کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے کیونکہ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت پر گامزن فرمادے اس کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنا جائز نہیں ہے۔ جس طرح جبراً کسی شخص کو اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا عین اسی طرح ایک غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے سے روکا بھی نہیں جا سکتا۔ اگر عمر کی قید لگا کر یا دیگر تاخیری ہتھکنڈے استعمال کر کے اسلام قبول کرنے سے روکنے کی کوشش کی جائے تو یہ بھی جبر ہے اور مذہبی آزادی چھیننے کے مترادف ہے۔ یعنی جس طرح اسلام میں قبولِ اسلام کے حوالے سے جبرو اکراہ جائز نہیں اسی طرح کسی غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے سے روکنا اور اس کو اسلام کی برکتوں سے محروم کرنا بھی ہرگز جائز نہیں ہے۔

حاصلِ کلام

مذکورہ بالا تمام دلائل وبراہین سے یہ بات اچھی طرح عیاں ہوتی ہے کہ دینِ اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب ہے۔ لہٰذا دینِ اسلام کی دعوت عام کرنا ہمارا ایمانی تقاضا ہے ہے۔ دعوتِ دین کی ذمہ داری نبھانا پیغمبرانہ شیوہ ہے اس لیے کوئی زمانہ بھی اس عمل سے خالی نہیں رہ سکتا یعنی انسانی تربیت کے لیے یہ ضروری امر ہے۔ جہاں اسلام جبراً کسی کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کی اجازت نہیں دیتا وہیں ہر عمر کے افراد کو اپنی مرضی اور ارادہ واِختیار سے اسلام قبول کرنے میں رکاوٹ ڈالنے سے بھی منع کرتا ہے۔ اگر جبراً کسی مذہب میں داخل کرنا اِنسانی حقِ آزادی کے خلاف ہے تو اِسی طرح اپنی خوشی سے اسلام قبول کرنے سے منع کرنا بھی حقِ آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ لہٰذا اٹھارہ (18) سال سے کم عمر افراد کو قبولِ اسلام کی اجازت نہ دینا اور اٹھارہ سال سےزائد عمر کے افراد کو اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود فوری اسلام میں داخل ہونے سے محروم کرنا یعنی تاخیری ہتھکنڈے استعمال کرنا اِنسانی حقِ آزادی کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے جسے نہ صرف اسلام بلکہ مہذب دنیا کے تمام عصری قوانین ناجائز قرار دیتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 16 April, 2024 07:28:17 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/6008/