جواب:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ.
’’اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو۔‘‘
الطلاق، 65: 1
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ.
’’اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔‘‘
البقرة، 2: 228
مذکورہ بالا آیاتِ مبارکہ میں طلاق کی عدت پوری کرنے کا حکم پایا گیا ہے۔ لہٰذا حکم باری تعالیٰ کے مطابق میاں بیوی کی علیحدگی خواہ طلاق، خلع یا تنسیخ میں سے کسی صورت بھی ہو، عورت پر عدت پوری کرنا فرض ہوتا ہے۔ عدت کا مقصد صرف رحم کا حمل سے خالی ہونا معلوم کرنا ہی نہیں ہے، علماء کرام نے کچھ اور مقاصد بھی بیان کئے ہیں جیسا کہ شمس الدین محمد بن ابو بکر المعروف ابن قیم رحمہ اللہ اعلام الموقعین میں عدت کے شروع ہونے کے کچھ اسباب اور حکمتیں بیان کرتے ہیں جن کا اعتبار شریعت نے کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:
1. الْعِلْمُ بِبَرَاءَةِ الرَّحِمِ، وَأَنْ لَا يَجْتَمِعَ مَاءُ الْوَاطِئَيْنِ فَأَكْثَرُ فِي رَحِمٍ وَاحِدٍ، فَتَخْتَلِطُ الْأَنْسَابُ وَتَفْسُدُ.
’’رحم کا خالی ہونا معلوم ہو جائے تاکہ دو یا زیادہ وطی کرنے والوں کی منی ایک رحم میں جمع نہ ہو جائے جس سے نسب میں اختلاط ہو اور نسب خراب ہو جائے۔‘‘
2. تَعْظِيمُ خَطَرِ هَذَا الْعَقْدِ، وَرَفْعُ قَدْرِهِ، وَإِظْهَارُ شَرَفِهِ.
’’عقد نکاح کی تعظیم اس کی قدر و منزلت کو بلند کرنا اور اس کی شرافت کو ظاہر کرنا ہے۔‘‘
3. تَطْوِيلُ زَمَانِ الرَّجْعَةِ لِلْمُطْلَقِ؛ إذْ لَعَلَّهُ أَنْ يَنْدَمَ وَيَفِيءَ فَيُصَادِفُ زَمَنًا يَتَمَكَّنُ فِيهِ مِنْ الرَّجْعَةِ.
’’طلاق دینے والے کے لیے رجعت کے زمانہ کو طویل رکھنا تاکہ ہو سکتا ہے کہ اس کو ندامت ہو اور رجوع کرلے، لہٰذا اس کے لئے اتنا زمانہ ہونا چاہیئے جس میں رجعت کر لینا ممکن ہو۔‘‘
4. قَضَاءُ حَقِّ الزَّوْجِ، وَإِظْهَارُ تَأْثِيرِ فَقْدِهِ فِي الْمَنْعِ مِنْ التَّزَيُّنِ وَالتَّجَمُّلِ، وَلِذَلِكَ شَرَعَ الْإِحْدَادَ عَلَيْهِ أَكْثَرَ مِنْ الْإِحْدَادِ عَلَى الْوَالِدِ وَالْوَلَدِ.
’’شوہر کے حق کی ادائیگی، اور زیب و زینت اختیار کرنے سے روکنے میں، شوہر کے نہ ہونے کی تاثیر کا اظہار کرنا ہے، اسی وجہ سے آباء واجداد اور اولاد پرسوگ کرنے سے زیادہ شوہر پرسوگ کرنا مشروع ہے۔‘‘
5. الِاحْتِيَاطُ لِحَقِّ الزَّوْجِ، وَمَصْلَحَةِ الزَّوْجَةِ، وَحَقِّ الْوَلَدِ، وَالْقِيَامِ بِحَقِّ اللَّهِ الَّذِي أَوْجَبَهُ؛ فَفِي الْعِدَّةِ أَرْبَعَةُ حُقُوقٍ، وَقَدْ أَقَامَ الشَّارِعُ الْمَوْتَ مَقَامَ الدُّخُولِ فِي اسْتِيفَاءِ الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ...فَلَيْسَ الْمَقْصُودُ مِنْ الْعِدَّةِ مُجَرَّدُ بَرَاءَةِ الرَّحِمِ، بَلْ ذَلِكَ مِنْ بَعْضِ مَقَاصِدِهَا وَحِكَمِهَا.
’’شوہر کے حق میں احتیاط بیوی کی مصلحت، بچے کا حق اور اللہ کے حق کو قائم رکھنا ہے جس کو اس نے واجب کیا ہے، اس طرح عدت میں چار حقوق ہیں، اور شریعت نے معقود علیہ کی وصولیابی کے حق میں موت کو وطی کے قائم مقام قرار دیاہے، لہٰذا عدت کا مقصد محض رحم کا خالی ہونا نہیں ہے، بلکہ یہ تو اس کا ایک مقصد اور ایک حکمت ہے۔‘‘
ابن قيم، أعلام الموقعين عن رب العلمين، 85 :2، بيروت: دار الجيل
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ طلاق، خلع یا تنسیخ کے اطلاق کے بعد عورت پر عدت پوری کرنا فرض ہے خواہ زوجین عرصہ دراز سے ہی الگ الگ رہ رہے ہوں۔ لہٰذا خلع کے بعد آپ پر عدت پوری کرنا فرض ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔