جواب:
جماعت میں شامل ہونے کے لیے صفوں کا متصل ہونا اور امام کی آواز مقتدیوں تک پہنچنا لازم ہے، اگر صفیں متصل ہیں اور امام کی آواز مقتدی یا مکبّر تک پہنچ رہی ہو تو نمازِ باجماعت کی ادائیگی درست ہے۔ صفیں متصل ہونے سے مراد ہے کہ ایک صف کے بعد دوسری صف ہو بلاوجہ درمیان میں زیادہ وقفہ نہ ہو۔ مگر لوگوں کے زیادہ تعداد میں ہونے کی وجہ سے امام کے پیچھے متصل مقامات پر لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ جس طرح آج کل مسجد کا حال، صحن، چھت اور تہہ خانہ وغیرہ اور جب کبھی جمعہ وعیدین پر لوگوں کی تعداد مزید بڑھ جائے تو ساتھ ملے ہوئے گلیاں، بازار اور سڑکیں بھی شامل کر لیے جاتے ہیں۔ اس پر جدید علماء کا اتفاق ہے، قدیم علماء میں جنہوں نے امام ومقتدیوں کے درمیان دیوار یا پردہ حائل ہونے کی وجہ سے منع کیا ہے انہوں نے امام کی آواز نہ پہنچنے کو منع کی دلیل بنایا ہے جبکہ آج کل یہ وجہ نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے الصحیح میں ’إِذَا كَانَ بَيْنَ الإِمَامِ وَبَيْنَ القَوْمِ حَائِطٌ أَوْ سُتْرَةٌ‘ (جب امام اور مقتدیوں کے درمیان دیوار یا پردہ حائل ہو) کے عنوان سے باب قائم کیا ہے اور پھر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی درج ذیل حدیث مبارکہ نقل کی ہے:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ فِي حُجْرَتِهِ، وَجِدَارُ الحُجْرَةِ قَصِيرٌ، فَرَأَى النَّاسُ شَخْصَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ أُنَاسٌ يُصَلُّونَ بِصَلاَتِهِ، فَأَصْبَحُوا فَتَحَدَّثُوا بِذَلِكَ، فَقَامَ اللَّيْلَةَ الثَّانِيَةَ، فَقَامَ مَعَهُ أُنَاسٌ يُصَلُّونَ بِصَلاَتِهِ، صَنَعُوا ذَلِكَ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا حَتَّى إِذَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَخْرُجْ، فَلَمَّا أَصْبَحَ ذَكَرَ ذَلِكَ النَّاسُ فَقَالَ: إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْكُمْ صَلاَةُ اللَّيْلِ.
رات کو رسول اللہ ﷺ میرے حجرے میں نماز پڑھا کرتے اور میرے حجرے کی دیوار نیچی تھی۔ لوگوں نے نبی کریم ﷺ کا جسم اقدس دیکھا تو آپ کے پیچھے نماز پڑھنے لگے۔ صبح کو لوگوں نے اس بات کا ذکر کیا۔ دوسری رات جب آپ نے قیام فرمایا تو لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ لوگوں نے ایسا دو یا تین رات کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ بیٹھنے لگے اور باہر تشریف نہ لے گئے۔ جب صبح ہوئی اور لوگوں نے اس کا ذکر کیا تو فرمایا کہ میں ڈرا کہ رات کی نماز تم پر فرض نہ فرما دی جائے۔
البخاري، الصحيح، كتاب الجماعة والإمامة، باب إذا كان بين الإمام وبين القوم حائط أو سترة، 1: 255، الرقم: 696، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
اس حدیث مبارکہ سے امام و مقتدی کے درمیان دیوار حائل ہونے کے باوجود جماعت میں شمولیت کی دلیل ملتی ہے۔ اسی طرح اگر امام ومقتدی عمارت کی ایک منزل میں نہ ہوں پھر بھی اس کی اقتدا میں نماز ادا ہو جاتی ہے بشرطیکہ امام کے پیچھے والی صفیں مکمل ہوں۔ جیسا کہ ابن ابی شیبہ نےایک روایت نقل کی ہے:
عَنْ صَالِحٍ، مَوْلَى التَّوْأَمَةِ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَوْقَ الْمَسْجِدِ بِصَلَاةِ الْإِمَامِ وَهُوَ أَسْفَلُ.
حضرت صالح مولی توأمہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی چھت پر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی حالانکہ امام نیچے تھا۔
ابن أبي شيبة، المصنف، 2: 35، الرقم: 6159، الرقم: الرياض: مكتبة الرشد
مذکورہ بالا تصریحات سے امام و مقتدی کے درمیان دیوار یا پردہ حائل ہونے کی صورت میں اقتداء کے جواز کا استدلال کیا گیا ہے جبکہ امام کی آواز مقتدی یا مکبر تک پہنچ رہی ہو۔
صورت مسئلہ میں دو گھروں کے بیچ دیوار حائل ہونے کے باوجود امام کی اقتداء میں ادا کی جانے والی نماز درست ہے بشرطیکہ امام کے پیچھے متصل صفیں مکمل ہونے کے بعد دوسرے گھر میں دیوار کے پیچھے صفیں بنائی گئی تھیں یا پہلے مکان میں مرد تھے اور دوسرے مکان میں عورتوں نے صفیں بنائیں اور امام کی آواز مقتدی یا مکبر تک پہنچ رہی تھی تو اقتداء جائز ہے۔ اس کے برعکس امام کے کھڑے ہونے والے مکان میں جگہ خالی ہے اور دوسرے مکان میں صفیں بنائی گئی ہیں تو اقتداء جائز نہ ہوگی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔