Fatwa Online

کیا نواسی نانا کی وراثت سے حصہ پائے گی؟

سوال نمبر:5889

السلام علیکم! ایک بیوہ عورت جس کی صرف ایک بیٹی ہے اور کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے، اس عورت کے باپ کے حصے میں سے اُس کی بیٹی کو کتنا حصہ ملے گا؟ واضح رہے کہ اس عورت کے تین بھائی بھی ہیں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: سردار علی

  • مقام: پشاور
  • تاریخ اشاعت: 12 دسمبر 2020ء

موضوع:تقسیمِ وراثت

جواب:

سائل نے سوال میں واضح نہیں کیا کہ بیوہ زندہ ہے یا فوت ہوگئی ہے؟ اگر فوت ہوچکی ہے تو اس کی وفات پہلے ہوئی ہے یا اس کے والد کی؟ سوال کے میں موجود ان احتمالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ذیل میں دو امکانات کے جوابات دیئے جا رہے ہیں، جو صورت موافق ہو سائل اسی کے مطابق حکم لگا لے:

صورتِ اوّل: اگر بیوہ زندہ ہے تو بیوہ بھائیوں کے ساتھ مل کر والد کے ترکہ سے حصہ پائے گی، یعنی والد کے کفن دفن، قرض (اگر ہے تو اس کی) ادائیگی اور وصیت (اگر مرحوم نے کی ہے تو اس کو) پورا کرنے کے بعد کل قابلِ تقسیم ترکہ کے  سات برابر حصے کیے جائیں گے، ہر بھائی کو دو اور بہن یعنی مذکورہ بیوہ کو والد کے ترکہ سے ایک حصہ ملے گا۔ بیوہ اگر چاہے تو زندگی میں ہی یہ حصہ اپنی بیٹی کو ہبہ کر سکتی ہے۔

صورتِ دوم: اگر بیوہ کا پہلے ہی وصال ہوچکا ہے اور اس کا والد اب فوت ہوا ہے تو بیوہ کی بیٹی کو نانا کی وراثت سے کچھ نہیں ملے گا۔ وراثت مرحوم کے تین بیٹوں میں ہی تقسیم ہوگی۔

مزید تفصیل کے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجئے: کیا نانا کی وراثت میں‌ نواسے کو حصہ ملے گا؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 22 November, 2024 10:24:00 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5889/