Fatwa Online

لاعلمی میں رضائی بہن سے نکاح کرلیا اب کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:5880

السلام علیکم مفتی صاحب! میرا ایک سوال ہے کہ ایک بچہ جس نے مدتِ رضاعت (دو سال کی عمر) میں کئی بار اپنی تائی جان کا دودھ پیا اور جب جوان ہوا تو اپنی اسی تائی کی اپنے سے چھوٹی بیٹی سے نکاح کر لیا اور اب اس میں سے دو بچے بھی ہیں۔ کیا قرآن وسنت کی روشنی میں یہ نکاح جائز ہے؟ اگر جائز نہیں ہے تو ان پر کیا حدود و تعزیرات لاگو ہوں گی وضاحت فرمائیں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: عبد المجید

  • مقام: سیالکوٹ
  • تاریخ اشاعت: 25 ستمبر 2020ء

موضوع:محرمات نکاح

جواب:

اگر ماں کے علاوہ کوئی دوسری عورت بچے کو مدتِ رضاعت میں دودھ پلائے تو حرمتِ رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ یہ دودھ پینے والا بچہ اس عورت کی حقیقی اولاد کی طرح، اس کے اصول وفروع پر حرام ہو جاتا ہے۔ شریعتِ اسلامی میں نسب کی طرح رشتہ رضاعت کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا ہے کیونکہ رضاعی رشتوں کو بھی وہی تقدس دیا گیا ہے جو نسبی رشتوں کا ہے۔ جس طرح نسبی رشتوں سے نکاح جائز نہیں اسی طرح رضاعی رشتے بھی نکاح کے لیے حرام ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ.

اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں (تم پر حرام ہیں)۔

النساء، 4: 23

ایک حدیث مبارکہ حضرت عبد اللہ ابن عباس علیہما السلام سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ.

رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔

  1. البخاري، الصحيح، كتاب الشهادات، باب الشهادة على الأنساب والرضاع المستفيض والموت القديم، 2: 935، الرقم: 2502، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 339، الرقم: 3144، مصر: مؤسسة قرطبة
  3. الترمذي، السنن، كتاب الرضاع، باب ما جاء يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب، 3: 352، الرقم: 1146، بيروت: دار إحياء التراث العربي

حضرت عائشہ صدیقہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس ٹھہرے ہوئے تھے، میں نے ایک آواز سنی، کوئی شخص حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آنا چاہتا تھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض كيا: یا رسول اللہ! یہ شخص آپ کے حجرے میں آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ یہ فلاں شخص ہے جو حفصہ کا رضاعی (دودھ شریک) چچا ہے۔ حضرت عائشہ نے عرض كيا: یا رسول اللہ! اگر فلاں شخص زندہ ہوتا جو میرا رضاعی چچا تھا تو کیا وہ بھی میرے پاس آ سکتا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

نَعَمْ، إِنَّ الرَّضَاعَةَ تُحَرِّمُ مَا تُحَرِّمُ الْوِلَادَةُ.

ہاں، رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔

مسلم، الصحيح، كتاب الرضاع، باب يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة، 2: 1068، الرقم: 1444، بيروت: دار إحياء التراث العربي

رضاعت کے اہتمام کی تاکید میں کمال الدین محمد بن عبد الواحد المعروف ابن الہمام فرماتے ہیں:

وَالْوَاجِبُ عَلَى النِّسَاءِ أَنْ لَا يُرْضِعْنَ كُلَّ صَبِيٍّ مِنْ غَيْرِ ضَرُورَةٍ، وَإِذَا أَرْضَعْنَ فَلْيَحْفَظْنَ ذَلِكَ وَيُشْهِرْنَهُ وَيَكْتُبْنَهُ احْتِيَاطًا.

ضروری ہے کہ عورتیں ضرورت کے بغیر ہر بچے کو دودھ نہ پلائیں جب وہ دودھ پلائیں تو اس امر کو یاد رکھیں اس کو مشہور کریں اور بطور احتیاط اسے لکھ لیں۔

ابن الهمام، شرح فتح القدير، 3: 439، بيروت: دار الفكر

صاحبانِ فتاوٰی ہندیہ فرماتے ہیں:

يُحَرَّمُ عَلَى الرَّضِيعِ أَبَوَاهُ مِنْ الرَّضَاعِ وَأُصُولُهُمَا وَفُرُوعُهُمَا مِنْ النَّسَبِ وَالرَّضَاعِ جَمِيعًا.

دودھ پینے والے بچے پر رضاعی ماں باپ اور ان کے اصول وفروع نسبی ہوں یا رضاعی سب حرام ہو جاتے ہیں۔

الشخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، كتاب الرضاع، 1: 343، بيروت: دار الفكر

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ جب بچہ کسی دوسری عورت کا دودھ پی لے تو وہ عورت اس بچے کی رضاعی ماں بن جاتی ہے اور وہ بچہ اس عورت کی رضاعی اولاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب نسبی ماں اور اولاد کی طرح ان کے رشتے بھی منسلک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح حرمت ثابت ہوتی ہے جس طرح خونی رشتوں میں قائم ہوتی ہے۔

صورتِ مسئلہ کے مطابق اگر واقعی اس بچے نے مدتِ رضاعت میں اپنی تائی کا دودھ پیا تھا اور جوان ہونے کے بعد اُسی تائی کی بیٹی یعنی اپنی رضاعی بہن سے نکاح کیا تو یہ نکاح سرے سے قائم ہی نہیں ہوا کیونکہ قرآن وحدیث کے مطابق رضاعی بہن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ اگر انہوں نے غلطی سے ایسا کیا ہے تو معلوم ہو جانے کے بعد انہیں فوراً الگ ہو جانا چاہیے۔ اس کے برعکس اگر جان بوجھ کر نکاح کیا ہے تو بذریعہ عدالت ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر کے اُن کو الگ کیا جائے اور حدود آرڈنینس کے تحت انہیں قرار واقعی سزا دلوائی جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی جسارت نہ کرے۔ لیکن یہ سارا عمل بذریعہ عدالت ہونا چاہیے کسی کو اپنے طور پر کوئی قدم اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 16 April, 2024 05:05:34 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5880/