Fatwa Online

طلاق کا حق بیوی، کسی وکیل یا دار القضاء کو تفویض کیا جاسکتا ہے؟

سوال نمبر:5841

السلام علیکم! کیا شوہر طلاق کا حق کسی کو تفویض کرسکتا ہے؟ مثلا دارالقضاء یا اپنے گھر میں کسی بڑے شخص کو یا خود بیوی کو؟ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔ نوازش ہوگی۔ شکریہ

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد عمران خان

  • مقام: جدہ، سعودی عرب
  • تاریخ اشاعت: 28 نومبر 2020ء

موضوع:تفویض طلاق

جواب:

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ.

وہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔

البقرة، 2: 237

یعنی طلاق دینے کا اصل اختیار شوہر کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن وہ اپنا یہ اختیار کسی اور کو بھی سونپ سکتا ہے۔ شوہر چاہے تو طلاق دینے کے لیے اپنی طرف سے وکیل مقرر کر سکتا ہے، بذریعہ قاصد طلاق بھیج سکتا ہے یا طلاق دینے کا حق بیوی کو تفویض کر سکتا ہے۔ آج کل کے دور میں بذریعہ ای میل، واٹس ایپ، ٹیکسٹ میسج، وائس میسج یا دیگر تمام جدید ذرائع خود بھی طلاق دے سکتا ہے اور کسی دوسرے شخص کو بھی طلاق دینے کا اختیار سونپ سکتا ہے۔ بذریعہ وکیل طلاق دینے کی مثال درج ذیل حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ، وَهُوَ غَائِبٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيلُهُ بِشَعِيرٍ، فَسَخِطَتْهُ، فَقَالَ: وَاللهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَيْءٍ، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: لَيْسَ لَكِ عَلَيْهِ نَفَقَةٌ.

حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو عمرو بن حفص نے انہیں طلاق بتہ (نکاح ختم کرنے والی طلاق) دے دی، جبکہ وہ ان کے پاس موجود نہیں تھے، اس لیے انہوں نے اپنی طرف سے ایک وکیل اُن کی طرف کچھ جو دے کر بھیجا، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا اس پر ناراض ہوئیں تو ان کے وکیل نے کہا بخدا، ہم پر تمہارا کوئی حق واجب نہیں ہے۔ حضرت فاطمہ بنت قیس، رسول اللہ a کے پاس گئیں اور اس بات کا ذکر کیا، آپ a نے فرمایا: تمہارا اس پر کوئی نفقہ (کھانے اور رہائش کا خرچہ) واجب نہیں ہے۔

  1. مسلم، الصحيح، كتاب الطلاق، باب المطلقة ثلاثا لا نفقة لها، 2: 1114، الرقم: 1480، بيروت: دارإحياء التراث
  2. أبو داود، السنن، كتاب الطلاق، باب في نفقة المبتوتة، 2: 285، الرقم: 2284، بيروت: دار الفكر

یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں سے متعلقہ حصہ نقل کیا گیا ہے۔ اس حدیث مبارکہ کے مطابق حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا شوہر اُن کے پاس موجود نہیں تھے، انہوں نے وکیل کے ذریعہ سے طلاق دی ساتھ کچھ جو بھی بھیجے اور رسول اللہ a نے اس طلاق کو نافذ العمل قرار دے کر عدت پوری کرنے کا حکم فرمایا جیسا کہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

أَرْسَلَ إِلَيَّ زَوْجِي بِطَلَاقِي، فَشَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَمْ طَلَّقَكِ؟ فَقُلْتُ: ثَلَاثًا، قَالَ: لَيْسَ لَكِ نَفَقَةٌ، وَاعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ عَمِّكِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ.

مجھے میرے خاوند نے طلاق کہلا بھیجی، اور بعد ازاں میں نے اپنے کپڑے اوڑھ لیے، اور میں حضور نبی اکرم a کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ نبی کریم a نے دریافت فرمایا کہ آپ کو کتنی طلاقیں دی گئی ہیں۔ میں نے عرض کیا تین۔ آپ a نے فرمایا: تجھے عدت بیٹھنے کے لیے تیرے خاوند کی طرف سے خرچہ نہ ملے گا اور آپ نے ارشاد فرمایا کہ آپ اپنے چچا کے بیٹے کے گھر میں ایام عدت پورے کریں یعنی ابن ام مکتوم کے پاس۔

النسائي، السنن، 6: 150، كتاب الطلاق، باب إرسال الرجل إلى زوجته بالطلاق، الرقم: 3418، حلب، شام: مكتب المطبوعات

طلاق کا حق کسی دوسرے شخص کو سونپنے کے حوالے سے ابن ابی شیبہ نے ایک روایت نقل کی ہے:

عَنِ الْحَسَنِ، فِي الرَّجُلِ يَجْعَلُ أَمْرَ امْرَأَتِهِ بِيَدِ رَجُلٍ، قَالَ: هُوَ كَمَا قَالَ.

حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا معاملہ کسی دوسرے آدمی کے سپرد کر دے، پھر وہ دوسرا آدمی جو کرے وہی نافذ ہو گا۔

ابن أبي شيبة، المصنف، 4: 85، الرقم: 18070، الرياض: مكتبة الرشد

کسی دوسرے شخص کی طرح شوہر بیوی کو طلاق کا حق دے تو وہ بھی اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہے حضرت ابوالحلال کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان g سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا معاملہ اسی کے سپرد کر دے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا:

الْقَضَاءُ مَا قَضَتْ.

جو فیصلہ وہ کرے وہی نافذ ہو گا۔

ابن أبي شيبة، المصنف، 4: 86، الرقم: 18078

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ شوہر طلاق دینے کا حق کسی ادارے یا فردِ واحد کو سونپ سکتا ہے یا قاصد کے ذریعے طلاق کا پیغام اپنی بیوی کو بھیج سکتا ہے یا بیوی کو حقِ طلاق تفویض کر سکتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 24 November, 2024 05:16:11 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5841/