اگر ورثاء میں چھ بھائی اور دو بہنیں ہوں تو وراثت میں ہر ایک کا حصہ کتنا ہوگا؟
سوال نمبر:5819
السلام علیکم! میری دادی کی وفات ہوچکی ہے، ان کے چھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ان کے نام گھر ہے جس میں سب بیٹے رہتے ہیں، اب سب کی اولاد بڑی ہوگئی ہے، ایک بھائی کو بہت مسائل ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ گھر فروخت کر کے اس کا حصہ دے دیا جائے۔ دو بھائی راضی نہیں ہیں جبکہ باقی بھائی کہتے ہیں کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے، کسی بھی طرح کا فیصلہ ہو ہمیں منظور ہے۔ ایسے میں کیا ہونا چاہیے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: علی جبران
- مقام: کراچی
- تاریخ اشاعت: 12 اکتوبر 2020ء
موضوع:تقسیمِ وراثت
جواب:
حکمِ باری تعالیٰ کے مطابق مذکورہ مکان کی مارکیٹ ریٹ کے مطابق قیمت لگا کر کل چودہ
(14) حصے بنا کر ہر بھائی کو دو حصے اور ہر بہن کو ایک حصہ دیا جائے گا۔ قرآنِ مجید
میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ
حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے
دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔
النساء، 4: 11
اگر کوئی بھائی مکان میں نہیں رہنا چاہتا وہ دوسرے کسی بھائی کو اپنا حصہ دے کر
پیسے وصول کر لے تاکہ معاملہ حل ہو جائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی:محمد شبیر قادری
Print Date : 23 November, 2024 01:16:10 PM
Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5819/