جواب:
اہلِ علاقہ اپنے معاشرتی معاملات کے حل اور اپنے عوام کی تعلیم و تربیت کیلئے نمائندے چننے کا حق رکھتے ہیں۔ جس طرح حکومتی نمائندے چنے جاتے ہیں اسی طرح مسجد کیلئے امام و خطیب اور متولی کا چناؤ بھی اہلِ علاقہ کا حق ہے۔ یہ ہر صاحبِ عقل سمجھتا ہے اور یہی معاشرے کا عام رواج بھی ہے۔ کسی بھی شعبۂ زندگی میں چند افراد کی طرف سے مسلط کیا جانے والا شخص اہلِ علاقہ کا نمائندہ نہیں کہلاتا۔ شرعاً ایسے شخص کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يَقُولُ: ثَلَاثَةٌ لَايَقْبَلُ اللهُ مِنْهُمْ صَلَاةً، مَنْ تَقَدَّمَ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، وَرَجُلٌ أَتَى الصَّلَاةَ دِبَارًا وَالدِّبَارُ: أَنْ يَأْتِيَهَا بَعْدَ أَنْ تَفُوتَهُ، وَرَجُلٌ اعْتَبَدَ مُحَرَّرَهُ.
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ تین آدمیوں کی اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں فرماتا، ایک وہ جو ایسے لوگوں کا امام بن بیٹھے کہ وہ اسے ناپسند کرتے ہوں، دوسرا وہ شخص جو نماز کا وقت گزرنے کے بعد نماز پڑھنے آئے، تیسرا وہ جو کسی آزاد مرد یا عورت کو غلام بنالے۔‘‘
أبو داود، السنن، كتاب الصلاة، باب الرجل يؤم القوم وهم له كارهون، 1: 162، الرقم: 593، بيروت: دارالفكر
حضرت ابو غالب کہتے ہیں کہ میں نے ابو امامہ سے روایت سنی کہ انہوں نے بیان کیا:
قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: ثَلَاثَةٌ لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ آذَانَهُمْ: العَبْدُ الآبِقُ حَتَّى يَرْجِعَ، وَامْرَأَةٌ بَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَلَيْهَا سَاخِطٌ، وَإِمَامُ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ.
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمیوں کی نماز ان کے کانوں سے آگے نہیں بڑھتی، بھاگا ہوا غلام جب تک واپس نہ آ جائے، وہ عورت جو اس حالت میں رات گزارے کہ اس کا خاوند اس پر ناراض ہو اور اور قوم کا وہ امام جس کو لوگ ناپسند کرتے ہوں۔‘‘
الترمذي، السنن، كتاب الصلاة، باب ما جاء فيمن أم قوما وهم له كارهون، 2: 193، الرقم: 360، بيروت: دار إحياء التراث العربي- ابن أبي شيبة، المصنف، 3: 558، الرقم: 17138، الرياض: مكتبة الرشد- طبراني، المعجم الكبير، 8: 286، الرقم: 8098، الموصل: مكتبة الزهراء
فقہاء کرام نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا ہے:
رَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ إنْ كَانَتْ الْكَرَاهِيَةُ لِفَسَادٍ فِيهِ أَوْ؛ لِأَنَّهُمْ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ يُكْرَهُ لَهُ ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَ هُوَ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ لَا يُكْرَهُ ذَلِكَ.
’’ایک شخص کسی قوم کی امامت کرائے اور وہ اس سے ناراض ہوں تو ان کی یہ ناراضگی اگر اس امام کی ذاتی خرابی کی وجہ سے ہو یا یہ کہ وہ لوگ امامت کے زیادہ حقدار ہوں تو پھر اس شخص کے لیے یہ امامت مکروہ ہے۔ اگر وہ امامت کا زیادہ حقدار ہو تو پھر اس کے لیے یہ امامت کرانا مکروہ نہیں ہے۔‘‘
ابن نجيم، البحر الرائق، 1: 369، بيروت: دار المعرفة
اس لیے اہلِ علاقہ اپنی مسجد کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنی مسجد میں اپنے لوگوں میں سے باہمی رضامندی سے نمائندے چنیں اور ان کو ذمہ داری سونپیں کہ وہ مسجد کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں۔ اگر کسی ٹرسٹ یا تنظیم نے مسجد کو چندہ دیا تو اس نے مسجد کے لئے وقف کیا ہے لیکن چندہ جمع کرانے کی وجہ سے وہاں کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ لہٰذا فیصلہ اہلِ علاقہ کی رائے کے مطابق کیا جائے گا کہ وہاں امام و خطیب اور متولی مسجد کس کو مقرر کیا جائے یا کس کو نہ رکھا جائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔