Fatwa Online

اگر ورثاء میں چھ بیٹے ہوں تو وراثت کی تقسیم کس طرح ہوگی؟

سوال نمبر:5783

<p>محترم و مکرم جناب مفتی صاحب السلام و علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ! خدمت عالیہ میں مودبانہ التماس ھیکہ وراثت کے ایک مسئلے پر میں دین کی روشنی میں وضاحت کا خواہاں ہوں:</p> <p>صورت مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب (6) بھائی ہیں</p> <ol> <li>محمد راشد </li> <li>محمد ناصر </li> <li>محمد ساجد</li> <li>محمد عارف </li> <li>محمد آصف </li> <li>محمد عاقب مرحوم </li> </ol> <p>میرے والد محترم جناب محمد سعید خان صاحب مرحوم کی ملکیت والی آبادی کی ساری زمین (116)فٹ چوڑی اور( 65) فٹ لمبی ہے جسمیں سے (46)فٹ بائ (65) فٹ پر والد صاحب نے ایک منزلہ عمارت بنوائی جسمیں چار کمرے غسل خانہ، حمام اور مطبخ، صحن، برآمدہ تھے اور ایک کمرہ کی صرف دیواریں بلند کروائیں تھیں پر چھت نہیں تھا جس پر چھت اور پلاسٹر کا کام محمد عاقب نے اپنے پیسوں سے کرایا ۔۔ </p> <p>اور دوسرے منزلہ پر محمد راشد نے اکثر اپنے اور کچھ والد کے پیسوں کی مددسے چار کمرے حمام سیڑھی برآمدہ بنوائے۔</p> <p>اسکے بعد(70)فٹ زمین گڈھے میں تھی اس میں سے تقریبآ 16 بائ 65 فٹ زمین پر محمد راشد کے علاوہ پانچ بھائیوں کے پیسوں کی مدد سے ایک منزلہ عمارت بنوائی گئی جسمیں ساجد کا پیسہ تھوڑا زیادہ لگا اور محمد راشد کا پیسہ والد نے یہ کہہ کر نہیں لگنے دیا کہ راشد نے پہلے ہی عمارت بنانے میں پیسے لگائے ہیں۔۔۔ اور 16 بائ 65 کے اوپر دوسرے منزلہ کی پوری عمارت محمد ساجد نے تنہا اپنے رقم سے والد کے انتقال کے بعد بنوائی۔۔۔۔۔ </p> <p>اور گڈھے والی زمین پر مقدمہ ہے جسکا خرچہ سارے بھائ ملکر برداشت کر رہے ہیں جبکہ اس مقدمہ کی ساری دیکھ ریکھ محمد ساجد کر رہے تھے جس پر والد نے کہا تھاکہ دو چار فٹ زمین ساجد کو زیادہ دےدینا</p> <p>اور گڈھے والی زمین میں سے تقریبا 20 بائ 65فٹ زمین والد صاحب نے ساجد کو روڈ ٹھیکہ داری دلانے کے لئے سارے بھائیوں کے مشورہ اور اجازت سے رجسٹرڈ کر دیا تھا </p> <p>اور گڈھے والی زمین کو پِلر کے ساتھ زمین کے برا بر کرنے میں تقریبا دو لاکھ کا خرچہ آرہا ہے </p> <p></p> <p>لھذا اب جو حضرات بنے بنائے مکان کو اپنے حصے میں لینے کے خواہاں ہیں اور باقی کے دو تین لوگوں کو گڈھے میں حصہ لینے کو کہ رہے ھیں </p> <p>تو ان بنے بنائے مکان کو اپنے حصے میں لینے والوں کے ذمے بالخصوص محمد راشد اور محمد ساجد کے جوکہ بنے بنائے مکان کو اپنے حصے میں لینے کے خواہاں ہیں </p> <p>باقی کے گڈھے میں حصہ لینے والوں کو معاوضہ ادا کریں گے یا نہیں؟</p> <p>واضح ہو کہ یہ سارے مکان کی عمارت والد صاحب کی موجودگی میں بغیر کسی شرط کے بنائے گئےسواء 16 بائ 65 والی دوسرے منزلہ والی عمارت کے اور سارے بھائ اس مکان میں رہ بھی رہے ہیں </p> <p>اور والد صاحب سارے بھائیو سے ہر ماہانہ حسب استطاعت رقم بھی لیتے تھے اور راشد اور محمد ساجد نے جو زیادہ پیسے لگائے وہ اپنی اور والد کی رضا مندی سے لگائے </p> <p></p> <p>براے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں اور عنداللہ ماجور و مشکور ہوں </p>

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد ناصر

  • مقام: بھدوہی، اتر پردیش، انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 12 جنوری 2023ء

موضوع:تقسیمِ وراثت

جواب:

سائل کے والد جب زندہ تھے تو اس وقت بیٹیوں نے جو کچھ اُن کو دیا وہ سب ان کی ملکیت میں شامل ہوگیا، کیونکہ بیٹوں نے جو بھی خرچ کیا وہ مرحوم کو ہبہ ہوگیا، اور ہبہ کو واپس نہیں لیا جاسکتا۔ جب واہب کوئی شئے ہبہ کر دے تو اس کی ملکیت موہوب لہ کو منتقل ہو جاتی ہے اور واہب کا اس پر حقِ ملکیت ختم ہو جاتا ہے۔ والد کی زندگی میں جو بھی ان کی ملکیت پر خرچ ہوا وہ انہیں کی ملکیت شمار ہوگا۔ جیسا کہ شرعی اصطلاح میں ترکہ وہ مال ہوتا ہے جو کوئی شخص مرتے دم اپنی ملکیت میں چھوڑ جائے۔ جیسا کہ علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

التَّرِكَة فِي الِاصْطِلَاح: مَا تَرَكَهُ الْمَيِّتُ مِنْ الْأَمْوَالِ صَافِيًا عَنْ تَعَلُّقِ حَقِّ الْغَيْرِ بِعَيْنٍ مِنْ الْأَمْوَالِ.

’’ترکہ اصطلاح میں وہ تمام چیزیں ہیں جو مرتے وقت میت چھوڑ جائے، اُن کے ساتھ غیر کا حق متعلق نہ ہو۔‘‘

ابن عابدين، ردالمحتار، 6: 759، بيروت: دار الفكر

اور جو مال کوئی شخص مرتے دم چھوڑ جائے، اُسے مرحوم کے شرعی ورثاء میں تقسیم کیا جاتا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًاo

مردوں کے لیے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے۔

النساء، 4: 7

اس لیے سائل کے والد کی وفات کے وقت جو کچھ بھی ان کی ملکیت میں تھا وہ ان کی تمام اولاد میں وراثت کے مقررہ حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔ سائل کے بقول ورثاء میں سائل کے چھ (6) بھائی ہیں تو مرحوم کی تمام جائیداد مذکورہ چھ بیٹوں میں تقسیم ہوگی۔

والد کی وفات کے بعد جس بیٹے نے وراثتی مکان یا پلاٹ پر جو اخراجات کیے، اگر باقی ورثاء مان جائیں تو اس مد میں مذکورہ بیٹے کو اضافی حصہ دیا جاسکتا ہے، مگر خرچ کرنے والا اس کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ اگر مذکورہ چھ بیٹوں کے علاوہ کوئی اولاد نہیں ہے اور کوئی مزید وارث بھی نہیں ہے جائیداد انہی چھ بیٹوں میں تقسیم ہوگی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 30 December, 2024 10:41:41 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5783/