Fatwa Online

کیا عالم دین امامت و خطابت کے علاوہ تجارت بھی کرسکتا ہے؟

سوال نمبر:5761

السلام علیکم! عالم دین جو امامت خطابت یا درس وتدریس کے منصب پر فائز ہے۔ وہ اپنے ان مناصب کے ساتھ ساتھ تجارت بھی کرسکتا ہے یا نہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ نوازش ہوگی

سوال پوچھنے والے کا نام: خلیل کرناٹکی جامعی

  • مقام: بلاری، کرناٹکا، ہندوستان
  • تاریخ اشاعت: 25 ستمبر 2020ء

موضوع:دعوت و تبلیغ

جواب:

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًاO

اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔

النساء، 4: 29

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر صاحبِ ایمان کو مخاطب فرماتے ہوئے ناحق طریقے دوسروں کے اموال کھانے سے منع فرمایا ہے اور کاروبار یا تجارت کی صورت میں باہمی رضامندی سے لین دین کرنے کی اباحت بیان فرمائی ہے۔ آیت بیان کرنے کا مقصود یہ ہے کہ ہر صاحبِ ایمان کاروبار کرنے کا حق رکھتا ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَO فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO

اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

الْجُمُعَة، 62: 9-10

اس آیتِ مبارکہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے بلاتخصیص اہلِ ایمان کو مخاطب فرمایا ہے کہ نماز ادا کرنے کے بعد کسبِ حلال کی عام اجازت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی شخص پر کسبِ حلال کے سلسلے میں کوئی پابندی عائد نہیں کی بلکہ ایمانداری کے ساتھ کاروبارِ تجارت کرنے والوں کے بارے میں فرمایا:

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ.

(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔

النُّوْر، 24: 37

مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تجارت کرنا یا کسبِ حلال کے لیے کوشش کرنا ہر صاحبِ ایمان کے لیے جائز ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود تجارت فرمائی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنا ذریعہ معاش تجارت کو بنایا اور کسبِ حلال کے لیے مختلف کام کیے۔ اس لیے علمائے کرام دین کی اشاعت و تبلیغ یا امامت و خطابت کے ساتھ بہتر ذریعہ معاش کی خاطر تجارت کریں یا کسبِ حلال کا کوئی بھی کام کریں تو منع نہیں ہے بلکہ ایسا کرنے والا عالمِ دین زیادہ اعتماد اور جرات کے ساتھ دین کے احکام بتا سکتا ہے۔ اگر کسی عالم یا امام کے ذریعہ معاش کی وجہ سے امامت و خطابت یا درس و تدریس میں حرج ہو رہا ہے تو پھر انتظامیہ کا فرض ہے کہ ادارہ یا مسجد کی طرف سے اُس عالمِ دین کے لیے کم سے کم اس قدر اعزازیہ مقرر کریں جس سے اُسے کسبِ معاش کے مسائل نہ رہیں۔ جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تجارت پیشہ تھے، جب خلیفۃ الرسول کے عہدے پر متمکن ہوئے اور انتظامی امور کی انجام دہی کے سبب آپ کو کاروبار روکنا پڑا تو اہلِ حل و عقد کی تجویز پر آپ کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کر دیا گیا۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

لَمَّا اسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، قَالَ: لَقَدْ عَلِمَ قَوْمِي أَنَّ حِرْفَتِي لَمْ تَكُنْ تَعْجِزُ عَنْ مَئُونَةِ أَهْلِي، وَشُغِلْتُ بِأَمْرِ المُسْلِمِينَ، فَسَيَأْكُلُ آلُ أَبِي بَكْرٍ مِنْ هَذَا المَالِ، وَيَحْتَرِفُ لِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ.

جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تو فرمایا: میری قوم جانتی ہے کہ میرا کاروبار میرے اہل و عیال کی کفالت سے عاجز نہیں لیکن میں مسلمانوں کے کام میں مشغول ہو گیا ہوں، لہٰذا آلِ ابوبکر اس مال سے کھائے گی اور وہ اس میں مسلمانوں کے لیے کمائیں گے۔

البخاري، الصحيح، كتاب البيوع، باب كسب الرجل وعمله بيده، 2: 729، الرقم: 1964، بیروت: دار ابن كثير اليمامة

مذکورہ بالا آیات و روایات سے معلوم ہوا کہ عالمِ دین خواہ کسی بھی ذمہ داری پر فائز ہو وہ تجارت کرسکتا ہے۔ اگر اس کے فرائضِ منصبی میں حرج ہو رہا ہو تو انتظامیہ اس کی ضروریات پوری کرنے کا بندوبست کرے تاکہ وہ سارا وقت اور مکمل توجہ تبلیغ و تدریس کو دے سکے۔ اگر درس و تدریس اور امامت و خطابت کے ساتھ عالمِ دین کے لیے کاروبارِ دنیا کرنا ممکن ہو تو کوئی مانع نہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 21 November, 2024 10:53:13 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5761/