جواب:
جو شخص حج یا عمرہ کے لیے احرام باندھ لے اور پھر اُسے کسی دشمن کے خوف یا بیماری کی وجہ سے روکنا پڑے تو حج کرنے والے شخص کا کسی شرعی عذر کی وجہ سے وقوفِ عرفہ اور طواف دونوں سے رُکنا، جبکہ عمرہ ادا کرنے والے شخص کا صرف طواف سے رُکنا احصار کہلاتا ہے۔ اس شخص کو محصر کہتے ہیں۔ محصر کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ.
اور حج اور عمرہ (کے مناسک) اﷲ کے لیے مکمل کرو، پھر اگر تم (راستے میں) روک لیے جاؤ تو جو قربانی بھی میسر آئے (کرنے کے لیے بھیج دو) اور اپنے سروں کو اس وقت تک نہ منڈواؤ جب تک قربانی (کا جانور) اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے۔
البقرة، 2: 196
آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایسے شخص کو قربانی (دم) دے کر احرام کھولنے کی اجازت ہے۔ علامہ مرغینانی فرماتے ہیں:
وَإِذَا أُحْصِرَ الْمُحْرِمُ بِعَدُوٍّ أَوْ أَصَابَهُ مَرَضٌ فَمَنَعَهُ مِنْ الْمُضِيِّ جَازَ لَهُ التَّحَلُّلُ.
اور جب دشمن کی وجہ سے محرم روک لیا گیا یا اسے کوئی بیماری لاحق ہو گئی اور اس نے اسے (حج یا عمرہ) کر گذرنے سے روک دیا تو اس کے لیے حلال ہونا جائز ہے۔
مرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 180، المكتبة الإسلامية
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
وَأَمَّا حُكْمُ الْإِحْصَارِ: فَهُوَ أَنْ يَبْعَثَ بِالْهَدْيِ، أَوْ بِثَمَنِهِ لِيَشْتَرِيَ بِهِ هَدْيًا، وَيَذْبَحَ عَنْهُ، وَمَا لَمْ يَذْبَحْ ؛ لَا يَحِلُّ، وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْعُلَمَاءِ، سَوَاءٌ شَرَطَ عِنْدَ الْإِحْرَامِ الْإِهْلَالَ بِغَيْرِ ذَبْحٍ عِنْدَ الْإِحْصَارِ، أَوْ لَمْ يَشْتَرِطْ، وَيَجِبُ أَنْ يُوَاعِدَ يَوْمًا مَعْلُومًا يَذْبَحُ عَنْهُ، فَيَحِلُّ بَعْدَ الذَّبْحِ، وَلَا يَحِلُّ قَبْلَهُ، حَتَّى لَوْ فَعَلَ شَيْئًا مِنْ مَحْظُورَاتِ الْإِحْرَامِ قَبْلَ ذَبْحِ الْهَدْيِ يَجِبُ عَلَيْهِ مَا يَجِبُ عَلَى الْمُحْرِمِ إذَا لَمْ يَكُنْ مُحْصَرًا.
احصار کا حکم یہ ہے کہ قربانی کا جانور یا اس کی قیمت مکہ مکرمہ میں بھیج دے تاکہ اس کی قربانی خرید کر حرم شریف میں اس کی طرف سے ذبح کی جائے اور جب تک وہ قربانی ذبح نہ ہو وہ احرام سے حلال نہ ہوگا۔ عام علماء کا یہی قول ہے، خواہ احرام باندھتے وقت احصار کی صورت میں قربانی ذبح کرنے کی شرط لگائی ہو یا نہیں، دونوں کا حکم برابر ہے اور یہ واجب ہے کہ ایک دن مقرر کر کے وعدہ لے لے جس میں اس کی طرف سے قربانی ذبح کی جائے گی، تو وہ اس قربانی کے ذبح ہونے کے بعد احرام سے حلال ہو جائے گا اور ذبح سے پہلے احرام سے حلال نہ ہو گا، حتی کہ اگر اس نے اس قربانی کے ذبح ہونے سے پہلے کوئی ایسا فعل کیا جو احرام کی حالت میں منع ہو تو اس پر وہی کچھ واجب ہو گا جو محرم پر محصر نہ ہونے کی حالت میں واجب ہوتا ہے۔
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 1: 255، بيروت: دارالفكر
مذکورہ بالا تصریحات کے مطابق آج کل کورونا وائرس کی وجہ سے جن لوگوں کو حالتِ احرام میں عمرہ کرنے سے روک دیا گیا ہے اُن پر واجب ہے کہ ایک بکرا بطورِ دم مکہ مکرمہ میں بھیج کر ذبح کروائیں۔ جب دم دے دیا جائے وہ احرام کھول دیں۔ اگر کسی نے پہلے احرام کھول دیا ہے اُس پر بھی دم واجب ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔