Fatwa Online

مسنون روزے سے کیا مرا د ہے؟

سوال نمبر:565

مسنون روزے سے کیا مرا د ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:

  • تاریخ اشاعت: 11 فروری 2011ء

موضوع:روزہ  |  عبادات

جواب:

:  وہ روزے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرض روزوں کے علاوہ رکھے اور امت کو ان کی ترغیب دی مسنون روزے کہلاتے ہیں۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے :

 محرم الحرام کی نویں اور دسویں کے روزے۔ یومِ عاشورہ کے روزے سے متعلق بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عاشورہ کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا : 

يُکَفَّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ.

 مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاثة  أ يام من کل شهر و صوم يوم عرفة و عاشوراء، 2 :  819، رقم :  1162

’’یہ روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘

(2) عرفہ یعنی ذو الحجہ کی نویں تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے۔ یہ روزہ ان کے لئے مستحب ہے جو حالتِ حج میں نہ ہوں۔

حضرت ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرفہ کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

يُکَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ وَالْبَاقِيَةَ.

’’عرفہ کا روزہ گزشتہ اور آئندہ سال (کے گناہوں) کے لئے کفارہ ہے۔‘‘

 1۔ مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من کل شهر و صوم يوم عرفة و عاشوراء، 2 :  819، رقم :  1162

2۔ ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصوم، باب ماجاء فی فضل صوم عرفة، 2 : 116، رقم :  749

یاد رہے کہ حج کرنے والوں کا عرفہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے اس لئے روزے کی وجہ سے کمزوری کی بناء پر کہیں ان کی دعا و استغفار میں سستی نہ آجائے۔ جیسا کہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :  ’’میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حج کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرفہ کے دن روزہ نہ رکھا۔‘‘

 ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصوم، باب کراهية صوم يوم عرفة بعرفة، 2 : 117، رقم :  751

ہاں اگر کسی حاجی پر روزے کی وجہ سے کمزوری و ضعف کا غلبہ نہ ہونے پائے تو فقہاء کرام نے اسے روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے۔

 کاسانی، بدائع الصنائع، 2 :  79

(3) ایام بیض کے تین روزے یعنی ہر اسلامی مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزے رکھنا بھی مستحب ہے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

صَوْمُ ثَلَاثَةٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانَ إِلَی رَمَضَانَ صَوْمُ الدَّهْرِ.

 مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من کل شهر، 2 :  819، رقم :  1162

’’ہر ماہ تین دن کے روزے رکھنا اور ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا یہ تمام عمر کے روزوں کے مترادف ہے۔‘‘

(4) پندرھویں شعبان کا روزہ یعنی ماہ شعبان کی پندرہ کو روزہ رکھنے کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلقین فرمائی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمای :  ’’جس وقت شعبان کی نصف کی شب ہوتی ہے تو تم لوگ اس رات کو قیام کیا کرو اور دن کو روزہ رکھا کرو۔ پس بے شک اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کیا ہے کوئی استغفار کرنے والا میں اس کو معاف کر دوں کیا ہے کوئی رزق مانگنے والا میں اس کو رزق دے دوں کیا ہے کوئی سائل میں اس کو عطا کر دوں۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ فجر ہو جاتی ہے۔‘‘

 بيہقی، شعب اليمان، باب فی الصيام، ماجاء فی ليلة النصف من شعبان، 3 : 379، رقم :  3822

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Print Date : 21 November, 2024 04:40:29 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/565/