جواب:
علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ سورہ فاتحہ مکی سورت ہے یا مدنی، حضرات ابن عباس، قتادہ اور ابو العالیہ الریاحی وغیرہم کے نزدیک یہ سورت مکی ہے۔ حضرات ابو ہریرہ، مجاہد، عطاء، بن یسار، زہری وغیرہم سورہ فاتحہ کو مدنی سورت قرار دیتے ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اس کا نصف ہجرت سے قبل نازل ہوا اور نصف ہجرت کے بعد نازل ہوا، یہ قول ابو الیث نصر بن محمد بن ابراہیم سمرقندی نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے۔
علماء کی اکثریت نے پہلے قول یعنی سورہ فاتحہ کے مکی سورت ہونے کو اصح قرار دیا ہے، اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ:
وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ.
اور بیشک ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیتیں (یعنی سورۂ فاتحہ) اور بڑی عظمت والا قرآن عطا فرمایا ہے۔
الحجر، 15: 87
یہ آیت سورۃ الحجر کی ہے اور سورۃ الحجر بالاجماع مکی ہے۔ اس سلسلے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ بالاتفاق نماز مکہ میں فرض ہوئی تھی اور اسلام میں نماز کبھی بھی بغیر سورہ فاتحہ نہیں پڑھی گئی، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’لا صلاة الا بفاتحة الکتاب‘ یعنی سورۃ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں۔
درج بالا آیت و روایت سے واضح ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ مکی سورت ہے۔
راجح قول کے مطابق قرآن مجید میں 114 سورتیں ہیں، یہی عرف ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔