جواب:
اسلام میں طلاق کو ناپسندیدہ فعل قرار دینے کے باوجود ناگزیر ضرورت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ طلاق دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ طلاق کی نوبت آنے میں عورت اور مرد دونوں کا انفرادی اور اجتماعی کردار اہمیت رکھتا ہے۔ درج ذیل چند وجوہات ایسی ہے جن کی وجہ سے طلاق کی نوبت آتی ہے:
1۔ طلاق کی عمومی وجہ مرد اور عورت کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث پیدا ہونے والی طبعی یا عارضی نفرت ہوتی ہے جس کے بعد عورت اور مرد میں درگزر اور ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے زندگی بسر کرنے میں مشکلات پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس میں عورت یا مرد کے انفرادی کردار کے علاوہ ان کے رشتہ داروں کی نازیبا مداخلت سمیت بے شمار معاشرتی، نفسیاتی اور نفسانی معاملات کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
2۔ میاں بیوی کے مزاج میں مناسبت کا نہ ہونا اور ان کے دل سے ایک دوسرے کو قبول نہ کرنا۔
3۔ ان کے درمیان معاشی و معاشرتی حیثیت کا فرق پایا جانا۔
4۔ دونوں کی ذہنی و علمی استطاعت میں تضاد پایا جانا، جس کی وجہ سے قربت کے ہوتے ہوئے بھی دوری کا احساس رہے۔
5۔ زوجین کے درمیان جنسی و اخلاقی کمزوریوں کا حائل ہو جانا۔
مذکورہ بالا وجوہات طلاق کا باعث بنتی ہیں اور ایسے حالات کے پیش نظر عقلی تقاضا یہی ہے کہ دونوں میں علیحدگی ہو جائے کیونکہ اگر مذکورہ متضاد رویوں اور حالات کے باوجود میاں بیوی کو ساتھ رہنے پر مجبور کیا جائے گا تو مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے بوجھ بن جائیں گے۔ طلاق نہ دینے کی صورت میں دونوں کا گھریلو سکون غارت ہو جائے گا جس سے بچے اور خاندان بری طرح متاثر ہوں گے۔ طلاق دینے کی صورت میں عورت سے مہر، تمام زیورات، ملبوسات یا تحائف وغیرہ کوئی شے بھی واپس لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بصورتِ خلع بھی عورت کا مرد سے بلاوجہ و بلاجواز طلاق کامطالبہ کرنے کو اسلام میں سخت ناپسند کیا گیا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔