Fatwa Online

اگر شوہر حقِ زوجیت ادا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تو زوجین کیلئے کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:5627

السلام علیکم! ہم نے اپنی بہن کی شادی ماموں زاد سے کرا دی بعد میں پتہ چلا کہ اس میں باپ بننے کے اہلیت ہی نہیں ہے۔ شادی کو اب نو ماہ گزر چکے ہیں۔ شریعتِ اسلامی اس بابت کیا حکم دیتی ہے؟ تفصیلی جواب سے رہنمائی فرمائیں۔ نوازش ہوگی۔

سوال پوچھنے والے کا نام: عتیق احمد

  • مقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 02 دسمبر 2021ء

موضوع:زوجین کے حقوق و فرائض

جواب:

اگر خاوند نامرد ہو یعنی حق زوجیت ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو بیوی بذریعہ عدالت اس سے آزادی کا مطالبہ کرے، حاکم اسے ایک سال کی مہلت دے۔ اگر سال میں قربت کے قابل ہوگیا تو نکاح برقرار رہے گا۔ ورنہ عدالت عورت کے مطالبہ پر تفریق کردے۔ یہی روایت ہے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود رضوان اللہ علیہم اجمعین سے۔ دنیا بھر کے فقہائے کرام کا یہی فتویٰ ہے جیسے ابو حنیفہ اور آپ کے اصحاب، امام شافعی اور ان کے اصحاب، امام مالک اور ان کے اصحاب، امام احمد اور ان کے اصحاب۔ اور یہی حکم ہے جادو زدہ اور نامرد کا۔ علامہ مرغینانی فرماتے ہیں:

فَإِذَا مَضَتْ الْمُدَّةُ وَلَمْ يَصِلْ إلَيْهَا تَبَيَّنَ أَنَّ الْعَجْزَ بِآفَةٍ أَصْلِيَّةٍ فَفَاتَ الْإِمْسَاكُ بِالْمَعْرُوفِ وَوَجَبَ عَلَيْهِ التَّسْرِيحُ بِالْإِحْسَانِ، فَإِذَا امْتَنَعَ نَابَ الْقَاضِي مَنَابَهُ فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا وَلَا بُدَّ مِنْ طَلَبِهَا لِأَنَّ التَّفْرِيقَ حَقُّهَا وَتِلْكَ الْفُرْقَةُ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ لِأَنَّ فِعْلَ الْقَاضِي أُضِيفَ إلَى الزَّوْجِ فَكَأَنَّهُ طَلَّقَهَا بِنَفْسِهِ... لِأَنَّ الْمَقْصُودَ وَهُوَ دَفْعُ الظُّلْمِ عَنْهَا لَا يَحْصُلُ إلَّا بِهَا لِأَنَّهَا لَوْ لَمْ تَكُنْ بَائِنَةً تَعُودُ مُعَلَّقَةً بِالْمُرَاجَعَةِ وَلَهَا كَمَالُ مَهْرِهَا إنْ كَانَ خَلَا بِهَا.

’’جب سال بھر مدت گذر جائے اور مرد جماع کے قابل نہ ہو تو واضح ہوگیا کہ یہ عاجزی اصلی آفت کی وجہ سے ہے، لہٰذا امساک بالمعروف، بھلائی کے ساتھ بیوی کو روک لینا، نہ رہا اب خاوند پر لازم ہے کہ اچھے طریقہ سے اسے آزاد کردے۔ جب خاوند اس پر آمادہ نہ ہو قاضی خود اس (خاوند) کا قائمقام ہوکر دونوں میں تفریق کردے چونکہ یہ بیوی کا حق ہے لہٰذا اس کا مطالبہ کرنا ضروری ہے اور یہ تفریق و تنسیخ طلاق بائن ہوگی۔گویا یہ طلاق خاوند نے خود دی ہے۔۔۔ کیونکہ اصل مقصد یعنی ظلم کا خاتمہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اگر یہ تفریق طلاق بائنہ نہ ہوئی تو رجوع کی صورت میں بیچاری پھر لٹکنے لگے گی۔ اگر خاوند نے اس سے خلوت کی ہے تو اسے مکمل حق مہر بھی ملے گا۔‘‘

المرغیناني، الهدایة شرح البداية، 2: 26، المکتبة الإسلامیة

جب عورت حقِ زوجیت کی طلب رکھتی ہو لیکن اس کا شوہر حق ادا کرنے کے قابل نہ ہو مگر وہ اسے طلاق بھی نہ دے تو یہ عمل عورت پر ظلم ہے، اس ظلم کا خاتمہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ امام محمد بن عبد الواحد المعروف ابن الہمام فرماتے ہیں:

فَإِذَا امْتَنَعَ كَانَ ظَالِمًا فَنَابَ الْقَاضِي عَنْهُ فِيهِ فَيُضَافُ فِعْلُهُ إلَيْهِ.

’’جب خاوند طلاق نہ دے تو وہ ظالم ہے، لہٰذا قاضی اس مسئلہ میں خود خاوند کا قائم مقام ہو کر تفریق کر دے اب قاضی کا فعل خاوند کی طرف منسوب ہوگا۔‘‘

ابن الهمام، شرح فتح القدیر، 4: 300، بیروت: دار الفکر

صاحبان فتاویٰ ہندیہ فرماتے ہیں:

إنْ اخْتَارَتْ الْفُرْقَةَ أَمَرَ الْقَاضِي أَنْ يُطَلِّقَهَا طَلْقَةً بَائِنَةً فَإِنْ أَبَى فَرَّقَ بَيْنَهُمَا ...وَالْفُرْقَةُ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ..وَلَهَا الْمَهْرُ كَامِلًا وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ بِالْإِجْمَاعِ إنْ كان الزَّوْجُ قد خَلَا بها وَإِنْ لم يَخْلُ بها فَلَا عِدَّةَ عليها وَلَهَا نِصْفُ الْمَهْرِ إنْ كان مُسَمًّى وَالْمُتْعَةُ إنْ لم يَكُنْ مُسَمًّى.

’’اگر بیوی جدائی چاہتی ہے تو قاضی (عدالت) اس کے خاوند کو طلاق بائن دینے کا حکم دے۔ اگر انکار کرے تو قاضی دونوں میں تفریق کردے یہ فرقت طلاق بائن ہوگی۔ اس عورت کو پورا مہر ملے گا اور بالاتفاق اس پر عدت لازم ہے اگر خاوند نے اس سے خلوت صحیحہ کی ہے اور اگر خلوت صحیحہ و قربت نہیں کی تو عورت پر عدت نہیں اور اگر مہر مقرر تھا تو اس کا نصف دینا ہوگا اور مہر مقرر نہ تھا تو حسب توفیق کپڑوں کا جوڑا اور تحائف وغیرہ۔‘‘

فتاوی ہندیہ میں مزید لکھا ہے جس کا خلاصہ ہے کہ ’’یہی حکم ہے نامرد کا۔ مقطوع الذکر کا، خصی کا، قصیر الذکر کا، ان سب کی بیویوں کو اگر وہ عدالت میں اپنا کیس پیش کریں اور عدالت کو سچا ہونے کا یقین ہوجائے تو ایسے نالائق شوہروں سے بذریعہ عدالت تنسیخ نکاح کا حق ہے اور یہ تنسیخ طلاق بائن ہوگی۔‘‘

الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندیة، 1: 524، دار الفکر

ان تمام صورتوں کے بارے میں علامہ شامی فرماتے ہیں:

فَالضَّرَرُ الْحَاصِلُ لِلْمَرْأَةِ بِهِ مُسَاوٍ لِضَرَرِ الْمَجْبُوبِ فَلَهَا طَلَبُ التَّفْرِيقِ.

’’اس سے عورت کو پہنچنے والی تکلیف مجبوب (مقطوع الذکر) کی تکلیف کے برابر ہے اس لئے عورت کو بذریعہ عدالت تفریق کا حق ہے۔‘‘

ابن عابدین شامي، ردالمحتار، 3: 495، بیروت: دار الفکر للطباعة والنشر

حقِ زوجیت کی طلب رکھنا انسانی فطرت ہے، اگر شوہر اس قابل نہ ہو تو بیوی اس سے طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ مطالبہ کے باوجود وہ طلاق دینے سے انکار کرے تو عورت بذریعہ عدالت تنسیخ نکاح کروا سکتی ہے۔ لہٰذا آپ کی ہمشیرہ کے شوہر اگر واقعی حقِ زوجیت ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں تو ان کا علاج ومعالجہ کروائیں۔ اگر میڈیکل رپورٹ کے مطابق وہ لا علاج ہیں یا پورا سال علاج کرنے کے باوجود حقِ زوجیت ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے تو عدالت اس نکاح کو فسخ کر سکتی ہے۔ عدالتی فیصلہ سے نکاح ختم ہو جائے گا اور لڑکی عدت پوری کر کے جہاں چاہے دستور کے مطابق نکاح کر سکتی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 21 November, 2024 10:46:06 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5627/