Fatwa Online

گالم گلوچ کرنے والے امام کی اقتداء کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:5604

معزز مفتیانِ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! براہِ کرم ایک مسئلہ میں رہنمائی فرمائیں کہ ہماری مسجد کے خطیب صاحب ایک شرعی مسئلہ میں دوسرے مسلک کے خطیب صاحب سے موبائل فون پر گفتگو کر رہے تھے دوران ِ گفتگو بات گالم گلوچ تک پہنچ گئی، دونوں نے باہم گندی اور غلیظ گالیوں کا تبادلہ کیا جس کو اپنے موبائل میں ریکارڈ بھی کر لیا۔ بعد ازاں دوسرے مسلک کے خطیب نے اپنے لوگوں کے سامنے اس بات کا اقرار کیا کہ میں گندی اور فحش گالیاں دینے کی وجہ سے امامت کا اہل نہیں ہوں جب یہی بات ہم نے اپنے خطیب صاحب سے کی اور ان کی حیثیت کی وضاحت مانگی تو ان کا کہنا تھا کہ: 1: گالیاں دینے سے میری امامت میں کوئی حرف نہیں آیا۔ 2: اگر میں نے گالیاں دی ہیں تو کیا غلط کیا اللہ تعالیٰ نے بھی تو قرآن کریم میں گالیاں دی ہیں۔ وضاحت طلب امر یہ ہے کہ: (1) کیا واقعی قرآن کریم میں گالیاں موجود ہیں؟ (2) کیا اپنے گالم گلوچ کو اللہ کے کلام سے تشبیہ دینا سراسر گستاخی یا کفر کے زمرہ میں نہیں آتا؟ (3) ایسے شخص کی امامت کا حکم کیا ہو گا؟ مذکورہ مسائل میں رہنمائی فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: عثمان لیاقت

  • مقام: پیپلز کالونی، گوجرانوالہ
  • تاریخ اشاعت: 04 ستمبر 2019ء

موضوع:رذائلِ اخلاق

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

1۔ آیات و روایات اور سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں گالی دینا اور سبّ و شتم کرنا ممنوع اور رذیل اخلاق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ:

سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ.

مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: خوف المؤمن من أن يحبط عمله وهو لا يشعر، 1 : 27، الرقم : 48، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: بيان قول النبي صلي الله عليه وآله وسلم سباب المسلم فسوق وقتاله کفر، 1: 81، الرقم : 64، بيروت: دار إحياء التراث العربي

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا ہے کہ:

الْمُسْتَبَّانِ شَيْطَانَانِ يَتَهَاتَرَانِ وَيَتَكَاذَبَانِ.

آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں کہ ایک دوسرے کے مقابلے میں بد زبانی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں۔

ابن حبان، الصحیح، 13: 34، رقم: 5696، بيروت: مؤسسة الرسالة

اور گالیاں دینا منافقت کی علامات میں سے ہے جیسا کہ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِيهِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ کَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ کَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ النِّفَاقِ حَتَّی يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ.

چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کا ایک حصہ ہے، یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے۔ جب امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑے تو بیہودہ بکے۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، كتاب الإيمان، باب علامة المنافق، 1: 21، رقم: 34
  2. مسلم، الصحيح، كتاب الإيمان، باب بيان خصال المنافق، 1: 78، رقم: 58

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ گالی گلوچ کرنا اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے اور گندی گالیاں دینا تو بدرجہ اولیٰ سخت منع اور گناہ كبيرہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ گندی گالیوں کے جواز میں وہ آیات پیش کرنا جن میں اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقت بیان کی ہے، یہ عمل انتہائی قبیح اور اسلام کی بدنامی کا باعث ہے کیونکہ ولید بن مغیرہ وہ شخص تھا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغِ حق سن کر نعوذ باللّہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مجنون کہا۔ یہ بات اللّہ تعالیٰ کی بارگاہ اتنی معیوب تھی کہ ستار العیوب نے اپنے کلامِ حق میں اس کے عیب گنوائے۔ جن میں سے ایک عیب یہ تھا کہ:

عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍO

(جو) بد مزاج درُشت خو ہے، مزید برآں بد اَصل (بھی) ہے۔

الْقَلَم، 68: 13

ولید بن مغیرہ غضب سے اپنے گھر میں داخل ہوا اور ماں کے سینے پر سوار ہو کر کہنے لگا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے 9 عیب گنوائے ہیں، آٹھ مجھے پتہ ہیں کہ میرے اندر موجود ہیں لیکن نویں عیب کی تصدیق تمہارے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا (یا 10 عیب اور 9 جانتا ہوں)۔ اس کی ماں نے کہا کہ تمہارا باپ ناکارہ تھا، مجھے خطرہ تھا کہ اس کی وفات کے بعد ہمارے مال کا کیا بنے گا، سو میں نے ایک چرواہے کو بلایا، تو اسی کی اولاد ہے۔

7. تِبیانُ القرآن، 12: 185، لاهور: فريد بك ستال

اس سے واضح ہوتا ہے کہ گستاخئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ولید بن مغیرہ کی حقیقت کھول کر بیان کر دی، جس کی بعد ازاں اس کی ماں نے بھی تصدیق کر دی۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے اس لیے اس نے گستاخِ رسول کی حقیقت کی اصلیت بیان کردی۔ اسے گالیوں کے جواز کے طور پر پیش کرنا اور گالی دینے کو جائز سمجھنا اسلامی تعلیمات کا حلیہ بدلنے کے مترادف ہے۔

2۔ گالیوں کا جواز تلاش کرنا اُن کا علمی ضعف اور غلط استدلال ہے، اس پر کفر کا فتویٰ لگانے سے گریز کیا جائے۔ امامت کا منصب مقدس ہے، جو تقویٰ و پرہیزگاری اور اعلیٰ اخلاقی رویے کا تقاضا کرتا ہے۔ آئمہ حضرات کو اپنے کردار پر خاص توجہ دینی چاہیے کیونکہ وہ عامۃ الناس کے لیے مثال (Role Model) ہوتے ہیں۔ مذکورہ امام صاحب گناہ کے مرتکب ہوئے انہیں اللہ تعالیٰ سے اس کی معافی مانگنی چاہیے۔

3۔ گناہگار کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی ممانعت نہیں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا:

الصَّلاَةُ الْمَكْتُوبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ.

فرض نماز کی ادائیگی لازم ہے ہر مسلمان کے پیچھے خواہ وہ نیک ہو یا بد‘ اگرچہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو۔

أبوداود، السنن، كتاب الصلاة، باب إمامة البر والفاجر، 1: 162، رقم: 594، بيروت: دار الفكر

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا:

الْجِهَادُ وَاجِبٌ عَلَيْكُمْ مَعَ كُلِّ أَمِيرٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَالصَّلاَةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْكُمْ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ وَالصَّلاَةُ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ.

تم پر جہاد فرض ہے ہر امیر کے ساتھ، نیک ہو یا بد گو کبیرہ گناہ کرے۔ تم پر نماز پڑھنا واجب ہے ہر مسلمان کے پیچھے، نیک ہو یا بد گو کبیرہ گناہ کرے۔ اور نماز جنازہ ہر مسلمان پر واجب ہے نیک ہو خواہ برا گو گناہ کبیرہ کرے۔

  1. أبوداود، السنن، كتاب الجهاد، باب في الغزو مع أئمة الجور، 3: 18، رقم: 2533
  2. بيهقي، السنن الکبری، 3: 121، رقم: 5083، مکة المکرمة: مکتبة دار الباز

مذکورہ روایات سے واضح ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کی اقتداء میں نماز کی ادائیگی جائز ہے اگر مقتدی اس کی امامت پر راضی ہوں، اگر مقتدی اس کی امامت پر راضی نہیں ہیں تو اس کی نماز نہ ہو گی۔ جیسا کہ حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے:

ثَلَاثَةٌ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُمْ صَلَاةً، مَنْ تَقَدَّمَ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، وَرَجُلٌ أَتَى الصَّلَاةَ دِبَارًا وَالدِّبَارُ: أَنْ يَأْتِيَهَا بَعْدَ أَنْ تَفُوتَهُ، وَرَجُلٌ اعْتَبَدَ مُحَرَّرَهُ.

تین آدمیوں کی نماز اﷲ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا: ایک وہ جو ایسے لوگوں کا امام بن بیٹھے جبکہ وہ اسے ناپسند کرتے ہوں، دوسرا وہ شخص جو نماز کا وقت گزرنے کے بعد نماز پڑھنے آئے، تیسرا وہ جو کسی آزاد مرد یا عورت کو غلام بنالے۔

أبي داود، السنن، 1: 122، رقم: 593

حضرت غالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوا مامہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اﷲ نے فرمایا:

ثَلاَثَةٌ لاَ تُجَاوِزُ صَلاَتُهُمْ آذَانَهُمْ: العَبْدُ الآبِقُ حَتَّى يَرْجِعَ، وَامْرَأَةٌ بَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَلَيْهَا سَاخِطٌ، وَإِمَامُ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ.

تین آدمیوں کی نماز ان کے کانوں سے آگے نہیں بڑھتی: ایک بھاگا ہوا غلام جب تک واپس نہ آ جائے، دوسری وہ عورت جو اس حالت میں رات گزارے کہ اس کا خاوند اس پر ناراض ہو اور تیسرا کسی قوم کا امام جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں۔

  1. ترمذي، السنن، كتاب أبواب الصلاة ، باب ما جاء فيمن أم قوما وهم له كارهون ، 2: 193، رقم: 360، بيروت، لبنان: دار إحياء الترث العربي
  2. ابن أبي شیبة، المصنف، 1: 358، رقم: ٤113، الریاض: مکتبة الرشد

المختصر یہ کہ اگر اہلِ علاقہ مذکورہ امام صاحب کی اقتداء میں نماز کی ادائیگی کے لیے تیار ہیں تو کسی کو حق نہیں کہ انہیں امامت کروانے سے روکے اور اگر اہل علاقہ ان کی امامت پر رضامند نہیں ہیں تو امام صاحب کو امامت کے لیے بضد نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں نہ تو ان کی اپنی نماز قبول ہوگی اور نہ ان کی اقتداء کرنے والوں کی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 20 April, 2024 12:07:35 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5604/