Fatwa Online

کیا کوئی جائز کام کرنے پر ہدیہ لینا جائز ہے؟

سوال نمبر:5593

السلام علیکم! مفتی صاحب میں کسٹم میں ملازمت کرتی ہوں۔ وہاں سپیڈ منی لی جاتی ہے جو کہ ناجائز بھی نہیں سمجھی جاتی کیوں کہ یہ کوئی غلط کام کر کے نہیں لی جاتی بلکہ ایک قسم کی ٹپ یا جگا ٹیکس جیسی چیز ہے۔ رہنمائی فرمائیں کیا یہ لینا جائز ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: فائزہ

  • مقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 04 دسمبر 2019ء

موضوع:مالیات

جواب:

آپ نے سوال میں سیپڈ منی کے لیے ٹپ اور جگا ٹیکس کی اصطلاحات استعمال کی ہیں حالانکہ ٹپ اور جگا ٹیکس دو مختلف اصطلاحات ہیں۔ ٹپ ایسی رقم کو کہتے ہیں جو کسی خدمت کے عوض کوئی شخص اپنی مرضی سے دیتا ہے، اگر نہ دے تو زبردستی نہیں کی جاتی جبکہ جگا ٹیکس کی اصطلاح سے مراد عام طور پر وہ رقم ہوتی ہے جو کسی سے زبردستی وصول کی جائے۔ اس لیے یہ ’سپیڈ منی‘ اگر تو ٹپ کی طرح ہے کہ دینے والا کسی جائز خدمت کے عوض اپنی مرضی سے دیتا ہے تو اس کا وصول کرنا جائز ہے لیکن اس کے برعکس اگر بھتہ کی طرح زبردستی وصول کی جاتی ہے تو یہ لینا جائز نہیں۔ تنخواہ کے علاوہ عہدہ یا جاہ و منصب کی بنیاد پر وصول کی جانے والی مشروط اضافی رقوم رشوت، بھتہ اور جگا ٹیکس کے زمرے میں آتی ہیں‘ اور یہ سب ناجائز ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ایک واقعہ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ بنو اسد کے ایک شخص ابن التيبہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے عامل بنایا، جب وہ (زکوٰۃ وصول کر کے) آئے تو انہوں نے کہا یہ آپ کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: ان عاملوں کا کیا حال ہے کہ میں ان کو (زکوٰۃ وصول کرنے) بھیجتا ہوں اور یہ آ کر کہتے ہیں:

هَذَا لَكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، أَفَلَا قَعَدَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ، أَوْ فِي بَيْتِ أُمِّهِ، حَتَّى يَنْظُرَ أَيُهْدَى إِلَيْهِ أَمْ لَا؟ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَنَالُ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى عُنُقِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةٌ لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةٌ تَيْعِرُ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَتَيْ إِبْطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللهُمَّ، هَلْ بَلَّغْتُ؟ مَرَّتَيْنِ.

یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ (تحفہ) کیا گیا ہے۔ یہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں بیٹھا ہوتا پھر ہم دیکھتے کہ اس کو کوئی چیز ہدیہ کی جاتی ہے یا نہیں..! قسم اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے! تم میں سے جو شخص بھی ان اموال میں سے کوئی چیز لے گا قیامت کے دن وہ مال اس کی گردن پر سوار ہو گا (کسی شخص کی گردن پر) اونٹ بڑبڑا رہا ہو گا، یا گائے ڈکرا رہی ہو گی یا بکری منمنا رہی ہو گی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ اتنے بلند کیے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا: اے اللہ میں نے تبلیغ کر دی ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، كتاب الأحكام، باب هدايا العمال، 6: 2624، رقم: 6753، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب الإمارة، باب تحريم هدايا العمال، 3: 1463، رقم: 1832، بيروت: دار إحياء التراث العربي

اس حدیثِ پاک سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عہدے پر فائض ہونے کی وجہ سے تحائف وصول کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی ہے کیونکہ کسی عہدہ پر متمکن شخص کو تحائف کی صورت میں رشوت دے کر لوگ غلط کام کرواتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عُمال و افسران کو دورانِ خدمات ہدیہ وصول کرنے پر تنبیہ فرمائی ہے۔

کسی چیز کو کہیں جائز سمجھا جاتا ہے یا نہیں‘ اس سے اس شے کا جواز یا عدم جواز طے نہیں ہوسکتا۔ سپید منی کے بھی جواز یا عدم جواز کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ اس کا حصول کیسے ہوتا ہے؟ اگر یہ لوگوں سے زور زبردستی ہتھیائی جاتی ہے تو لینا ممنوع ہے۔ اگر ٹپ کی طرح لوگ اپنی مرضی سے بغیر کسی بدلے کے حصول کے دے کر جاتے ہیں تو جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 16 April, 2024 02:38:03 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5593/