جواب:
روزے کی فرضیت کا حکم سن دو (2) ہجری میں تحویلِ قبلہ کے واقعہ سے کم و بیش دس پندرہ روز بعد نازل ہوا۔ آیتِ صیام شعبان کے مہینے میں نازل ہوئی جس میں رمضان المبارک کو ماہِ صیام قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ.
البقرة، 2 : 185
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں۔ پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔‘‘
ہجرت کے بعد روزے کو فرض کرنے کی حکمت یہ تھی کہ جب مسلمان توحید و رسالت، نماز اور ما قبل ہجرت نازل ہونے والے دیگر احکامِ قرآن پر عمل کرنے کے خوگر اور عادی ہوجائیں تو پھر انہیں روزہ حکم دیا جائے۔ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عاشورا (دس محرم) کا روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب صیامِ رمضان کو فرض کیا گیا تو صومِ عاشورا کا حکم منسوخ ہو گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم عاشورا کا روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان فرض ہو گیا تو اُسے چھوڑ دیا گیا۔
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب وجوب صوم رمضان، 2 : 669، رقم: 1793
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔