جواب:
ماہ رمضان المبارک میں تراویح کے دوران پورے قرآن حکیم کا پڑھنا سنت ہے بشرطیکہ مقتدیوں کو اس سے اکتاہٹ محسوس نہ ہو۔ افضل یہی ہے کہ صلاۃ التراویح کے دوران قرآن حکیم کی تلاوت میں ان کے حالات کو ملحوظ رکھا جائے اور پڑھنے میں اتنی جلدی نہ کی جائے جس سے نماز میں خلل واقع ہو۔
عصر حاضر میں ایک دن میں قرآن حکیم کا شبینہ کرانے کا رواج بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے جو درحقیقت صریحاً سنت کے خلاف ہے کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دورانِ ماہ ایک ختم قران پر اِکتفا کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا معمول ہر روز ایک قرآن ختم کرنے کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابی موصوف کو بلایا اور حسبِ دستور انہیں مہینے میں ایک قرآن ختم کرنے کی ہدایت فرمائی۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس سے زیادہ کی استطاعت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے زیادہ اصرار پر پہلے بیس دن، پھر دس دن اور آخر میں ہر سات دن کے بعد ایک قرآن ختم کرنے کی اجازت ان الفاظ میں عطا فرما دی :
فَاقْرَأْ. فِي کُلِّ سَبْعٍ.
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب النهی عن صوم الدهر لمن تضرر به أو فوت به حق. . . ، 2 : 813، رقم : 1159’
’سات دن میں ایک قرآن پڑھ لیا کرو۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث سے یہ نکتہ بڑی صراحت کے ساتھ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک دن میں قرآن حکیم کا شبینہ کرانے کا رواج صریحاً خلافِ سنت ہے لہٰذا اگر شبینہ کرانا مقصود ہو تو اس کا صحیح طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق ختم قرآن کے لئے زیادہ سے زیادہ سات سے دس دن یا کم از کم تین رات کی محفل شبینہ کا اہتمام کیا جائے۔ محافل شبینہ کے لئے چند باتوں کو پیش نظر ضرور رکھا جائے کہ تلاوت کردہ قرآنی الفاظ کو سننے والے اس کے الفاظ مطالب و معانی کے ساتھ سمجھ سکیں نہ کہ رفتار اتنی تیز ہو کہ الفاظ گڈمڈ ہو جائیں اور سننے والے کے کچھ بھی پلے نہ پڑے۔ شبینہ یا کسی اور صورت میں قرآن کریم اتنا پڑھا جائے جس سے دل بوجھل نہ ہو جونہی اکتاہٹ محسوس ہو تلاوت ختم کر دی جائے۔ حضرت جندب بن عبد اﷲ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمای :
’’قرآن پڑھتے رہو جب تک تمہارا دل زبان کی موافقت کرتا رہے (یعنی جب تک اکتاہٹ نہ ہو) اور جب دل اور زبان میں اختلاف ہو جائے تو اٹھ جاؤ۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب النهی عن اتباع متشابه القرآن، 4 : 2054، رقم : 2667
شبینہ میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال نامناسب ہے۔ اس لئے کہ تلاوت قرآن سننا واجب ہے اور نہ سننے والا شریعت کی نظر میں گنہگار ٹھہرتا ہے۔ لہٰذا مناسب اور دانش مندانہ بات یہ ہے کہ شبینہ کے لئے اوّل تو لاؤڈ سپیکر نہ لگایا جائے اور اگر اس کا استعمال ناگزیر ہو تو اس کے لئے اندرونی نظام ہو تاکہ اس کی آواز مسجد کی چار دیواری سے باہر نہ جا سکے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔