جواب:
اگر کوئی شخص سال پورا ہونے سے پہلے زکوٰۃ کی پیشگی ادائیگی کرنا چاہے تو شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجھہ الکریم سے روایت ہے کہ:
أَنَّ الْعَبَّاسَ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ، فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذَلِكَ.
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سال گزرنے سے پہلے زکوٰۃ ادا کرنے کے متعلق دريافت كيا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔
سنن ابو داؤد میں ہے کہ راوی نے ایک بار (فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذَلِكَ) کی بجائے (فَأَذِنَ لَهُ فِي ذَلِكَ) روایت کی ہے۔
امام مالک رحمہ اﷲ نے پیشگی زکوٰۃ دینے سے اختلاف کیا ہے لیکن احناف نے اس حدیث مبارکہ کو جواز کی دلیل بنایا ہے:
وَلَنَا مَا رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْلَفَ مِنْ الْعَبَّاسِ زَكَاةَ سَنَتَيْنِ وَأَدْنَى دَرَجَاتِ فِعْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَوَازُ.
ہماری دلیل یہ روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دوسال کی زکوٰۃ پیشگی لی۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل کا کم ازکم درجہ جواز کا ہے۔
علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع، 2: 51، بیروت: دار الکتاب العربي
اسی طرح امام شمس الدین سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَتَعْجِيلُ الزَّكَاةِ عَنْ الْمَالِ الْكَامِلِ الْمَوْجُودِ فِي مِلْكِهِ مِنْ سَائِمَةٍ أَوْ غَيْرِهَا جَائِزٌ عَنْ سَنَةٍ أَوْ سَنَتَيْنِ أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ.
تمام مال جو کسی کی ملکیت میں ہو خواہ مویشی ہوں یا کوئی اور مال ہو، اس میں سے پیشگی زکوٰۃ ادا کرنا جائز ہے، چاہے ایک سال کی ، دوسالوں کی یا زیادہ سالوں کی ہو۔
سرخسي، المبسوط، 2: 176، بیروت: دار المعرفة
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ آپ ایک سال کی پیشگی زکوٰۃ ادا کر سکتے ہیں۔ اگر نصف رمضان میں اور باقی اکتوبر میں ادا کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔