جواب:
رمضان المبارک میں قیام اللیل کو بہت اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کی راتوں میں تواتر و کثرت کے ساتھ نماز، تسبیح و تہلیل اور قرات قرآن میں مشغول رہتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أنْ يَأْمُرَهُمْ بِعَزِيْمَةٍ، و يَقُوْلُ : مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّ احْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
ترمذی، الجامع الصحيح، أبواب الصوم، باب الترغيب فی قيام رمضان وما جاء فيه من الفضل، 2 : 161، رقم : 808
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کو فرضیت کے بغیر قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : جس شخص نے ایمان اور احتساب (محاسبۂ نفس کرنے) کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کیا اس کے پچھلے سارے (صغیرہ) گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ رمضان میں نمازِ تراویح بھی قیام اللیل کی ایک اہم کڑی ہے جسے قیام رمضان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نمازِ تراویح کے سبب جتنا قیام اس مہینے میں کیا جاتا ہے وہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں نہیں ہوتا۔ اس سے منشاء ایزدی یہ ہے کہ بندہ رمضان المبارک کی راتوں کو زیادہ سے زیادہ اس کے حضور عبادت اور ذکر و فکر میں گزارے اور اس کی رضا کا سامان مہیا کرے۔ اس لئے کہ رمضان کی با برکت راتیں شب بیداری کا تقاضا کرتی ہیں کیونکہ روایات میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی راتوں کو آسمان دنیا پر نزولِ اجلال فرما کر اپنے بندوں کو تین مرتبہ ندا دیتا ہے۔
هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأُعْطِيَهُ سُؤْلَهُ، هَلْ مِنْ تَائِبٍ فَأَتُوْبَ عَلَيْهِ؟ هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاغْفِرَ لَهُ؟
بيهقی، شعب الإيمان، 3 : 335، رقم : 3695
’’کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اس کی حاجت پوری کروں، کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں، کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں۔‘‘
رحمت پروردگار رمضان المبارک کی راتوں میں سب کو اپنے دامنِ عفو و کرم میں آنے کی دعوت دیتی ہے۔ شومئ قسمت کہ انسان رحمت طلبی اور مغفرت جوئی کی بجائے رات کی ان گراں بہا ساعتوں کو خواب غفلت کی نذر کردیتا ہے جبکہ رب کی رحمت اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر پکارتی ہے۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں
یوں بد نصیب انسان غفلت کی نیند تانے یہ ساعتیں گزار دیتا ہے۔ اور رحمتِ ایزدی سے اپنا حصہ وصول نہیں کرتا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔