Fatwa Online

عقودِ معاوضہ اور عقودِ تبرع میں‌ کیا فرق ہے؟

سوال نمبر:5312

کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ براہ مہر بانی درج ذیل اصطلاحات کی وضاحت بمعہ امثلہ فرما دیں: عقدِ تبرع، عقدمعاوضہ، عقدِ‌ مفاوضہ، غرر، قمار، ربا اور وقف مملوک۔

سوال پوچھنے والے کا نام: ثمرہ نور قادری

  • مقام: راولپنڈی
  • تاریخ اشاعت: 11 مئی 2019ء

موضوع:خرید و فروخت (بیع و شراء، تجارت)

جواب:

عقد میں عوض ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے بعض فقہاء کرام نے اس کی دو قسمیں کی ہیں: عقدِ معاوضہ اور عقدِ تبرع۔ ان کی الگ الگ وضاحت درج ذیل ہے:

عقد معاوضہ

معاوضہ سے مراد کوئی چیز کسی چیز کے بدلہ میں لینا یا دینا ہے۔ لہٰذا عقدِ معاوضہ ایسا عقد ہوتا ہے جس میں متعاقدین (عقد کرنے والے) ایک دوسرے کو کچھ دیں یعنی اس میں کچھ عوض لیا جاتا ہے۔ مثلاً بائع ثمن لے کر مشتری کو مبیع دیتا ہے۔ لہٰذا عقد بیع اور اس کی تمام اقسام مقایضہ، سلم و صرف، عقد اجارہ، استصناع، صلح، نکاح، خلع، مضاربت، مزارعت، مساقات اور شرکت وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔

عقد تبرع

عقد تبرع سے مراد ایسا عقد ہے جس میں کسی شئے کے بدلہ میں کو ئی چیز نہ لی جائے جیسے ہبہ، ودیعت، وصیت وغیرہ۔ ان عقود میں عوض لیے بغیر شئے حوالے کر دی جاتی ہے۔ مثلاً کوئی اپنی زمین مسجد و مدرسہ، سکول و کالج اور دیگر نیکی کے امور کے لیے بغیر عوض کے شئے حوالے کرنے کا وعدہ کرے تو یہ عقد تبرع ہو گا، اس کا پورا کرنا مستحب ہوتا ہے۔

عقد مفاوضہ

مفاوضہ کا معنی مساوات، برابری اور باہمی تفویض ہے۔ اس نسبت سے شرکت مفاوضہ وہ شرکت کہلاتی ہے جس میں تمام شرکاء، سرمایہ، کاروباری ذمہ داریاں، تصرفات اور نفع و نقصان میں برابر ہوتے ہیں اس میں ہر شریک اپنے ساتھی کی جانب شرکت کے معاملات کو علی الاطلاق تفویض کر دیتا ہے، اس طرح اس میں وکالت اور کفالت دونوں ہوتی ہیں۔ امام علاء الدین الکاسانی فرماتے ہیں:

الْمُفَاوَضَةُ إنَّهَا الْمُسَاوَاةُ في اللُّغَةِ.

مفاوضہ لغت میں مساوات کو کہتے ہیں۔

الكاساني، بدائع الصنائع، 6: 58، بيروت: دار الكتاب العربي

امام محمد بن علی بن محمد الحصکفی فرماتے ہیں:

مُفَاوَضَةٌ مِنْ التَّفْوِيضِ، بِمَعْنَى الْمُسَاوَاةِ فِي كُلِّ شَيْءٍ.

مفاوضہ تفویض سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے ہر چیز میں مساوات یعنی برابری۔

حصكفي، الدرالمختار، 4: 306، بيروت: دار الفكر

اسی طرح امام مرغینانی بیان کرتے ہیں:

شِرْكَةُ الْمُفَاوَضَةِ فَهِيَ أَنْ يَشْتَرِكَ الرَّجُلَانِ فَيَتَسَاوَيَانِ فِي مَالِهِمَا وَتَصَرُّفِهِمَا وَدَيْنِهِمَا.

شرکت مفاوضہ یہ ہے کہ دو شخص آپس میں شرکت کریں اور وہ دونوں اپنے مال، تصرف اور دین میں برابر ہوں۔

مرغيناني، الهداية شرح البداية، 3: 3، المكتبةالإسلامية

اسی کو عقد مفاوضہ کہتے ہیں۔

بیع الغرر

بیع الغرر کسی شئے کا ایسا لین دین ہے جو اس کے سودے کے وقت موجود نہ ہو۔ اس سے منع کرنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کا انجام خریدار سے پوشیدہ ہوتا ہے۔ مثلاً درختوں پر لگے پھلوں کو پکنے سے پہلے فروخت کرنا، تالاب میں موجود مچھلیوں کو باہر نکالے بغیر فروخت کرنا اور کھڑی فصل کو تیار ہونے سے پہلے فروخت کرنا وغیرہ۔ احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں بیان کیا:

نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْحَصَاةِ، وَعَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کنکری پھینکنے کی بیع اور دھوکے کی بیع سے منع فرمایا ہے۔

مسلم، الصحيح، كتاب البيوع، باب بطلان بيع الحصاة والبيع الذي فيه غرر، 3: 1153، رقم: 1513، بيروت: دار إحياء التراث العربي

مذکورہ بالا حدیث میں بیع الغرر کے ساتھ بیع الحصاۃ کا بھی ذکر ہے، اس سے مراد ہے کہ جب کوئی خریدار فروخت کنندہ کی کسی شئے پر کنکر پھینک دیتا ہے تو فروخت کا معاہدہ طے پا جاتا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی منع فرما یا ہے۔ اور ایک حدیث مبارکہ حضرت بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلاَحُهَا، نَهَى البَائِعَ وَالمُبْتَاعَ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت تک پھلوں کو فروخت کرنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ پورے پکے ہوئے نظر نہ آئیں۔ انہوں نے ایسا کرنے سے خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو منع فرمایا۔

بخاري، الصحيح، كتاب البيوع، باب بيع الثمار قبل أن يبدو صلاحها، 2: 766، رقم: 2082، بيروت: دار ابن كثير اليمامة

فقہاء کرام نے کتب فقہ میں نا جائز اور حرام بیوع کی مختلف اقسام قلمبند کی ہیں۔ ان سب کی بنیاد بالواسطہ یا بلاواسطہ ’’بيع الغرر‘‘ ہے۔ امام شمس الدین السرخسی بیع غرر کی تعریف یوں لکھتے ہیں:

الْغَرَرُ مَا يَكُونُ مَسْتُورَ الْعَاقِبَةِ.

وہ چیز جس کا انجام پوشیدہ ہو۔

السرخسي، المبسوط، 12: 194، بيروت: دار المعرفة

ابن حزم نے بیع غرر کے بارے میں لکھا ہے:

لَا يَدْرِي الْبَائِعُ أَيَّ شَيْءٍ هُوَ الَّذِي بَاعَ وَلَا يَدْرِي الْمُشْتَرِي أَيَّ شَيْءٍ اشْتَرَى.

غرر یہ ہے کہ بیچنے والے کو علم نہ ہو کہ وہ کون سی چیز بیچ رہا ہےاور نہ ہی خریدنے والے کو علم ہو کہ وہ کیا خرید رہا ہے۔

ابن حزم، المحلي، 8: 430، بيروت

الْغَرَرُ مَا يَكُونُ مَجْهُولَ الْعَاقِبَةِ لَا يَدْرِي أَيَكُونُ أَمْ لَا.

غرر سے مراد وہ شئے ہے جس کا انجام نا معلوم ہو اور (بائع و مشتری دونوں میں سے )کوئی بھی نہ جانتا ہوکہ مبیع (صحیح حالت میں ) ہو گی یا نہیں۔

جرجاني، التعريفات، 1: 208، بيروت: دار الكتاب العربي

یعنی ایسی مبہم بیع جس کے انجام کا پتہ نہ ہو، وہ بھی بیع الغرر ہے۔

قمار (جوا)

قرآنِ مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَo

اے ایمان والو! بے شک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لیے) نصب کیے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لیے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔ شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ کیا تم (ان شرانگیز باتوں سے) باز آؤ گے۔

المائدة، 5: 90، 91

علماء نے لکھا ہے کہ جب کھیل یا دیگر معاملات میں یہ شرط عائد کردی جائے کہ ہارنے والا، جیتنے والے کو کوئی چیز دے گا تو ایسی شرط جوئے کے زمرے میں آنے کی وجہ سے ممنوع ہے۔ میر سید شریف جرجانی فرماتے ہیں:

الْقِمَارُ: هُوَ أَنْ يَأْخُذُ مِنْ صَاحِبِهِ شَيْئًا فَشَيْئًا فِي اللَّعِبِ.

ہر وہ کھیل جس میں یہ شرط ہو کہ ہارنے والے کی کوئی چیز جیتنے والے کو دی جائے گی، قمار (جوا) ہے۔

جرجانی، التعريفات، 1: 229، بيروت: دارالکتب العربی

عربی زبان کی ڈکشنری، المنجد فی اللغہ میں قمار کا معنیٰ یوں لکھا ہے کہ:

ہر وہ کھیل جس میں یہ شرط لگائی جائے کہ غالب (جیتنے والا) مغلوب (ہارنے والا) سے کوئی چیز لے گا، خواہ تاش کے ذریعے ہو یا کسی اور چیز کے ذریعے۔

لوئيس معلوف، المنجد، 653، بيروت

جس کھیل یا معاملہ میں کچھ افراد کا اصل مال بھی جاتا رہے اور کچھ لوگ بہت زیادہ مال حاصل کر لیں تو ایسا کھیل یا معاملہ قمار کہلاتا ہے۔

ربا (سود)

لغت میں ربا کا معنی زیادتی، بڑھوتری اور بلندی ہے۔ ربا کی اصطلاح کاروبار اور تجارت میں بے انصافی اور استحصال سے فوائد حاصل کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ اردو میں ربا کو سود کہتے ہیں۔ابو القاسم الحسین بن محمد اصفہانی کہتے ہیں:

وَالرِّبَا الزَّيَادَةُ عَلَى رَأْسِ الْمَالِ لَكِنْ خُصَّ فِي الشَّرْعِ بِالزِّيَادَةِ عَلَى وَجْهِ دُوْنَ وَجْهِ.

اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہتے بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے، شرط کے بغیر اگر مقروض ، دائن کو خوشی سے کچھ زائد مال دے تو جائز ہے سود نہیں۔

أصبهاني، المفرادات في غريب القرآن، 1: 187، لبنان: دار المعرفة

ابو منصور محمد بن احمد الازہری، محمد بن مکرم بن منظور الافریقی اور محمد مرتضیٰ الحسینی الزبیدی فرماتے ہیں:

وَالرِّبَا؛ رَبَوَانِ: فَالْحَرَامُ كُلُّ قَرْضٍ يُؤْخَذُ بِهِ أَكْثَرُ مِنْهُ، أَوْ تُجَرُّ بِهِ مَنْفَعَةَ، فَحَرَامٌ.وَالَّذِي لَيْسَ بِحرَامٍ أَنْ يَهَبَهُ الْإِنْسَانُ يَسْتَدْعِي بِهِ مَا هُوَ أَكْثَرُ، أَوْ يُهْدِيَ الهَدِيَّة لِيُهدَى لَهُ مَا هُوَ أكثرُ مِنْهَا.

زیادتی دو قسم پر ہے، حرام وہ قرض ہے جو زیادتی کے ساتھ وصول کیا جائے یا اس سے فائدہ (بطور شرط) حاصل کیا جائے، وہ حرام ہے اور جو حرام نہیں وہ یہ ہے کہ مقروض مدت مقررہ پر اصل رقم پر بطور ہبہ کچھ اضافی مال قرض خواہ کو غیر مشروط دیدے۔

  1. الأزهري، تهذيب اللغة، 15: 196، بيروت: دار إحياء التراث العربي
  2. ابن منظور، لسان العرب، 14: 304، بيروت: دار صادر
  3. الزبيدي، تاج العروس، 38: 118، دار الهداية

ابو السعادات المبارک بن محمد الجزری لکھتے ہیں:

وَهُوَ فِي الشَّرْعِ الزَّیَادَةُ عَلَی أَصْلِ الْمَالِ مِنْ غَیْرِ عَقْدِ تَبَایُع.

شریعت میں رباء کا مطلب تجارتی سودے کے بغیر اصل مال پر اضافی منافع وصول کرنا۔

ابن الأثير الجزري، النهاية، 2: 192، بيروت: المكتبة العلمية

احمد بن علی الرازی الجصاص ابو بکر فرماتے ہیں:

وَهُوَ الْقَرْضُ الْمَشْرُوطُ فِيْهِ الْأَجَلُ وَزِيَادَةُ مَالٍ عَلَى الْمُسْتَقْرِضِ.

اور جس قرض میں مدت متعین کے ساتھ قرض لینے والے کو اضافی رقم دینا مشروط ہو۔

جصاص، أحكام القرآن، 2: 189، بيروت: دار إحياء التراث العربي

مذکورہ بالا تعریفات سے معلوم ہوا کہ قرض میں دیئے ہوئے اصل مال پر جو اضافی رقم مدت کے مقابلہ میں شرط اور تعیین کے ساتھ لی جائے وہ سود ہے۔ جبکہ سود قطعی طور پر حرام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی تجارت اور سود میں فرق بیان کیا ہے۔ حکم الہٰی کے مطابق تجارت کو حلال اور سود کو واضح طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَo يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍo

جو لوگ سُود کھاتے ہیں وہ (روزِ قیامت) کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لیے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو سود کی مانند ہے، حالاں کہ اﷲ نے تجارت (سوداگری) کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے، لہٰذا جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (سود سے) باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے، اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور اﷲ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)، اور اﷲ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتا۔

البقرة، 2: 275، 276

اور احادیث مبارکہ میں بھی سودی لین دین سے واضح طور پر منع کیا گیا ہےاور اس موضوع پر بہت سی احادیث مبارکہ ہیں لیکن یہاں مسئلہ سے متعلقہ چند نصوص نقل کی گئی ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

الدِّينَارُ بِالدِّينَارِ لَا فَضْلَ بَيْنَهُمَا، وَالدِّرْهَمُ بِالدِّرْهَمِ لَا فَضْلَ بَيْنَهُمَا.

اشرفی کے بدلے میں اشرفی دو تو اضافہ مت کرو اور روپے کے بدلے میں روپے دو تو اضافہ مت کرو۔

مسلم، الصحیح، كتاب المساقاة، باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا، 3: 1212، رقم: 1588، بیروت، لبنان: دار إحیاء التراث العربي

اسی طرح دیگر ہم جنس اشیاء کا آپس میں تبادلہ کرتے وقت برابر برابر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ اضافہ کرنے سے واضح طور پر منع کر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لاَ تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ، وَالفِضَّةَ بِالفِضَّةِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ، وَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالفِضَّةِ، وَالفِضَّةَ بِالذَّهَبِ كَيْفَ شِئْتُمْ.

سونے کو سونے کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر، چاندی کو چاندی کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر لیکن سونے کو چاندی کے بدلے یا چاندی کو سونے کے بدلے جس طرح چاہو فروخت کر دیا کرو۔

بخاري، الصحيح، كتاب البيوع، باب بيع الذهب بالذهب، 2: 761، رقم: 2066، بيروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة

اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، سَوَاءً بِسَوَاءٍ، يَدًا بِيَدٍ، فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ، فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ، إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ.

سونے کی بیع سونے کے عوض، اور چاندی کی بیع چاندی کے عوض اور گندم کی بیع گندم کے عوض اور جو کی بیع جو کے عوض اور کھجور کی بیع کھجور کے عوض اور نمک کی بیع نمک کے عوض برابر برابر اور نقد بہ نقد ہو اور جب یہ اقسام مختلف ہوجائیں تو پھر جس طرح چاہو بیچو بشرطیکہ نقد بہ نقد ہو۔

  1. مسلم، الصحیح، كتاب المساقاة، باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا، 3: 1211، رقم: 1587
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 320، رقم: 22779، مصر: مؤسسة قرطبة

اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَزْنًا بِوَزْنٍ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَزْنًا بِوَزْنٍ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، فَمَنْ زَادَ أَوِ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَى.

سونے کو سونے کے بدلے میں تول کر برابر برابر فروخت کرو اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں تول کر برابر برابر فروخت کرو، جس شخص نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو سود ہو گا۔

نسائي، السنن، كتاب البيوع، بيع الدرهم بالدرهم، 4: 29، رقم: 6161، بيروت: دار الكتب العلمية

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے واضح ہے کہ روپے کے بدلے روپے، سونے کے بدلے سونے، چاندی کے بدلے چاندی اور دیگر ہم جنس اشیاء کے آپس میں تبادلہ کی صورت میں کمی بیشی کرنا جائز نہیں ہے جبکہ مختلف اشیاء کا تبادلہ نقد بہ نقد کمی بیشی کے ساتھ جائز ہے۔ یعنی مدت کا عوض لینا سود ہے۔

وقف مملوك

فقہاء کرام نے وقف کی مختلف تعریفیں کی ہیں چنانچہ حنفیہ نے اس کی تعریف یہ کی ہے: عین (کسی شئے) کو اللہ تعالیٰ کی ملک کے حکم پر روک دینا اور اس کی منفعت جہاں چاہے صرف کرنا اور یہ تعریف صاحبین کے یہاں ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک عین کو وقف کرنے والے کی مِلک میں روک دینا اور منفعت کو اگرچہ فی الجملہ ہی ہو صدقہ کر دینا۔

الموسوعة الفقهية الكويتية، مترجم، 44: 126، مجمع الفقه الإسلامي الهند

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 24 November, 2024 05:08:21 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5312/