جواب:
جس طرح والدین اپنے بچوں کو پال کر جوان کرتے ہیں اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے محنت و مشقت کرتے ہیں اسی طرح اولاد کا فرض ہے کہ بڑھاپے میں والدین کی خدمت کریں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌo
آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں: جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بے شک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے۔
البقرة، 2: 215
آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے باقی اخراجات کی بجائے والدین کے حق کو ترجیح دے کر والدین پر مال خرچ کرنے کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: «أُمُّكَ» قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أُمُّكَ» قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أُمُّكَ» قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «ثُمَّ أَبُوكَ».
یا رسول اللہ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ۔ عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ۔ عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ۔ عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہارا والد ہے۔
اور حضرت عمرو بن شعیب کے والد ماجد نے اپنے والد محترم سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میرے پاس مال ہے اور اولاد بھی ہے اور میرے والد محترم میرے مال کے محتاج ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ، إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ.
تم اور تمہارا مال سب تمہارے والد کا ہے۔ تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی سے ہے۔ لہٰذا تم اپنی اولاد کی کمائی سے کھا سکتے ہو۔
اسی طرح حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس مال ہے اور اولاد بھی، اور میرے والد محترم کو میرے مال کی ضرورت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِيكَ.
تو اور تیرا مال، تیرے باپ کا ہے۔
ابن ماجه، السنن، كتاب التجارات، باب ما للرجل من مال ولده، 2: 769، رقم: 2291
اس لیے بوڑھے والدین کو اپنی گھریلو ضروریات کے لیے اولاد سے مانگنے کی نوبت تک نہ آنے دیں۔ والدین یا ان دونوں میں سے کوئی ایک اپنی اولاد کے مال میں سے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے لینا چاہے تو انہیں اس کا شرعی، اخلاقی اور سماجی حق حاصل ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔