جواب:
اِسلام سے پہلے معاشروں میں ایک سے زیادہ شادیوں کا رواج عام تھا۔ اُس زمانے جنگیں بہت زیادہ ہوتی تھیں جن میں عموماً مرد ہی مارے جاتے تھے، جس کی وجہ سے معاشرے میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جاتی تھی۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے لوگوں نے ایک سے زیادہ عورتوں سے شادیاں کرنا شروع کر دیں۔ اس کے علاوہ بیشتر رؤسا بھی ایک سے زیادہ شادیاں کرتے تھے۔ اسلام نے اس معاشرتی ضرورت کے پیش نظر تعدّد اِزدواج کو کلیتاً حرام تو قرار نہیں دیا مگر اس کی حوصلہ شکنی کی اور ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے لئے کئی شرائط لگائیں تاکہ مرد اپنی بیویوں کے درمیان اِعتدال قائم کر سکیں۔ آج کل اگرچہ زمانہ قدیم جیسی جنگیں نہیں ہوتیں، مگر پھر بھی عام طور پر مردوں کی نسبت خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ پاکستان ہی کی مثال لے لیں‘ یہاں خواتین کی آبادی مردوں کی نسبت چار فیصد زیادہ ہے۔ اب اگر ایک سے زیادہ شادی کرنا بالکل ممنوع قرار دے دیا جائے تو اُس چار فیصد آبادی کا کیا بنے گا؟ لامحالہ دوسری شادی کو کسی حد تک روا رکھنا ہوگا۔ تاہم جو کوئی ایک سے زیادہ شادیاں کرنا چاہتا ہے تو اُسے اِزدواجی زندگی کے ہر معاملے میں بیویوں کے ساتھ عدل و انصاف کی کڑی شرائط پر پورا اُترنا ہوگا۔
تعدد ازدواج کی دیگر حکمتیں بھی ہوسکتی ہیں مگر اس کی عمومی حکمت مردوں کی نسبت عورتوں کی تعداد زیادہ ہونا پیشِ نظر ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔