Fatwa Online

کیا حدیث میں‌ بھی ناسخ و منسوخ ہیں؟

سوال نمبر:5225

السلام علیکم! کیا علم الحدیث میں بھی قر آن مجید کی طرح '' ناسخ منسوخ'' ہے؟ یہ کیسے پتہ چلے کہ یہ حدیث منسوخ ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: فیصل بٹ

  • مقام: گوجرانوالہ
  • تاریخ اشاعت: 11 جنوری 2019ء

موضوع:حدیث اور علم حدیث

جواب:

علوم حدیث کی ایک اہم شاخ علم ناسخ و منسوخ کی معرفت ہے۔ نسخ کے لغوی معنی ختم کرنا، زائل کرنا اور مٹادینا ہے اور اصطلاحِ شریعت میں اس کی حقیقت یہ ہے کہ شارع کی جانب سے حکم سابق کی مدت ختم ہوجانے کا بتلانا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں بعض احکام موقت ہوتے ہیں، مدت کے پورے ہونے پرحکم انتہاء کوپہنچ جاتا ہے اور حکم سابق کی جگہ دوسرا حکم دیا جاتا ہے۔

نسخ ایسے حکم میں ہوتا ہے جومدت اور وقت کی تعیین کا احتمال رکھتا ہو، اگر اس میں وقت کی تعیین کا بالکل احتمال نہ ہو تو وہ نسخ کا مورد نہ ہوگا۔ نسخ کی بنیادی طور پردو قسمیں ہیں:

  1. نسخ منصوص
  2. نسخ اجتہادی

اگر دلیلِ نسخ خود کسی مرفوع حدیث میں وارد ہو تو یہ نسخِ منصوص کہلائے گا۔ اس کی مثال حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مرفوع ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

میں نے تم کوقبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، اب تم ان کی زیارت کیا کرو، میں نے تم کوقربانی کاگوشت تین دن سے زیادہ رکھنے کومنع کیا تھا، اب تم اس کوجتنے دن چاہو رکھو، میں تم کوچمڑوں کے مشکیزوں کے علاوہ میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا، اب تم جس برتن میں چاہو بناؤ مگرنشہ کا مشروب نہ پینا۔

(مسلم، كِتَاب الْجَنَائِزِ، بَاب اسْتِئْذَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ، حدیث نمبر: 1623)

اگر نسخ اجماع یا صحابی کے نسخ کی خبر دینے سے ثابت ہو اور اس میں اجتہاد کی گنجائش نہ ہو تو اسے نسخِ اجتہادی کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی یہ مرفوع روایت ہے کہ:

ایک جنس کی چیزوں کو ادھار فروخت کرنے میں سود ہے یعنی ہاتھ در ہاتھ لین دین کی صورت میں کمی بیشی کرنا سود نہیں ہے۔

(بخاری، كِتَاب الْبُيُوعِ، بَاب بَيْعِ الدِّينَارِ بِالدِّينَارِ نَسَاءً، حدیث نمبر: 2032)

حضرت اسامہ کی درج بالا حدیث حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی درج ذیل حدیث سے متعارض ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ:

إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ إِلَّاسَوَاءً بِسَوَاءٍ عَيْنًا بِعَيْنٍ فَمَنْ زَادَ أَوْ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَى.

(مسلم، كِتَاب الْمُسَاقَاةِ، بَاب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا، حدیث نمبر: 2969)

اس کا مقتضاء یہ ہے کہ اشیاء ستہ کا جس کے اتحاد کی صورت میں کمی بیشی کے ساتھ خرید و فروخت کرنا جائز نہیں ہے؛ اگرچہ دونوں عوض کی ادائیگی نقد ہو۔

بہرحال علماء و محدثین نے حدیث کے نسخ پر سیر حاصل مباحث کیں ہیں جو ’تیسیر مصطلح الحدیث‘ یا علمِ حدییث کی کسی کتاب سے دیکھی جاسکتی ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Print Date : 23 November, 2024 01:24:55 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5225/